چینی قونصلیٹ حملہ کیس میں مزید اہم انکشافات منظر عام پر آ گئے ہیں۔ حملے کے الزام میں گرفتار افراد کا اقبالی بیان ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا۔
کراچی میں 2018 میں ہونے والے چینی قونصلیٹ حملے کے مقدمے میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ چھ سال گزرنے کے باوجود ملزمان کے اقبالی بیانات ریکارڈ نہیں کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جس سے کیس کی تفتیش اور قانونی کارروائی پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔
کراچی کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جاری سماعت کے دوران چینی قونصلیٹ حملہ کیس میں گرفتار چار ملزمان کے وکیل، عابد زمان، نے انکشاف کیا کہ ان کے مؤکلوں کے اقبالی بیانات ابھی تک ریکارڈ نہیں کیے گئے۔
اس کے علاوہ، تفتیشی افسر ملزمان سے متعلق روزنامچے کی انٹریز کی تعداد بھی عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔
ملزمان کے وکیل، بیرسٹر سارہ عاصم، نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے گئے ہیں اور پولیس کے پاس ان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملزمان کو پہلے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں انہیں گرفتار دکھایا گیا۔
دوسری جانب، پولیس کا مؤقف ہے کہ 23 نومبر 2018 کو بی ایل اے کے ارکان نے کراچی میں واقع چینی قونصلیٹ پر حملہ کیا۔ اس حوالے سے تفتیشی افسر نیک محمد نے عدالت میں بیان دیا کہ انہوں نے چار مبینہ ملزمان احمد حسنین، عبد الطیف، اسلم، اور علی احمد کو دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ رکھنے کے مقدمات میں گرفتار کیا۔
تفتیشی افسر نے دعویٰ کیا کہ ملزمان نے قونصلیٹ پر حملہ آوروں کو سہولت فراہم کی تھی۔ ان کے مطابق، ملزمان نے حملہ آوروں کو اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد فراہم کیا اور حملے سے قبل قونصلیٹ کی ریکی کی۔
واضح رہے کہ چھ سال قبل کراچی میں بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ کے چینی قونصلیٹ پر حملے کے بعد پاکستانی سیکورٹی اداروں نے اس الزام میں متعدد افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جبکہ حملہ کیس میں بی ایل اے قیادت کے خلاف بھی مقدمات دائر کیے گئے تھے۔
حملے میں سہولت کاری فراہم کرنے کے الزام میں سی ٹی ڈی کراچی نے احمد حسنین، لطیف زہری، عارف، اسلم، علی احمد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جن میں احمد حسنین کی کوئٹہ سے جبری گمشدگی اور بعد ازاں کراچی سے گرفتاری، لطیف احمد کی کراچی سے جبری گمشدگی و بعد ازاں گرفتاری، اور عارف نامی ایک اور قیدی کے دوران حراست ہلاکت کا واقعہ شامل ہے۔
مزید برآں، مذکورہ حملے کے الزام میں پاکستانی حکام نے متحدہ عرب امارات سے بلوچ کارکن راشد حسین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جسے بعد ازاں کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت سے مفرور قرار دیا گیا، جبکہ راشد حسین کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی فورسز کے تحویل میں ہیں اور انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جا رہا ہے۔
راشد حسین کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں چھ سال گزرنے کے باوجود کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ خاندان نے الزام عائد کیا ہے کہ راشد کو جبری طور پر لاپتہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح دیگر ملزمان، جیسے احمد حسنین کو کوئٹہ سے اور عبد الطیف کو کراچی سے اغوا کر کے بعد میں گرفتار دکھایا گیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں تفتیشی افسر کے بیان پر وکیل صفائی کی جرح مکمل ہو چکی ہے اور سماعت ملتوی کردی گئی ہے۔ تاہم، اس کیس میں جبری گمشدگیوں، قانونی تقاضوں کی عدم پیروی، اور شفافیت کے فقدان کے باعث مزید سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔