(سوچ الگ نظریہ ایک (حصہ اول
تحریر: درشن بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہر روز کی طرح اس دن بھی واٹس ایپ گروپ میں کسی موضوع پر تنقید چل رہی تھی اور ابتدائی تنقید ہمیشہ مسکراہٹ سے اور جب انتہا کو پہنچتی ہے تو تھوڑی تلخی آ جاتی ہے اس تلخی کی سب سے اہم وجہ ایک ہی تھی اور وہ ہم تینوں کا سوچ کا الگ ہونا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ ایک ہی نتیجے پر اتفاق کرتے تھے کیونکہ ہم میں سے جو جتنا مضبوط دلائل پیش کرتا وہ اتنا ہی جلدی باقی تینوں کو قائل کرتا اور زیادہ تر ہم تینوں یعنی میں درشن ، سبزو، کماش اور ریحان ہی ہوتے تھے کیونکہ سبزو جان جب بھی کوئی بات کرتا تو وہ بڑے اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ہی کرتا اسی رات بات کرتے کرتے پتہ نہیں ہم میں سے کس نے پہاڑوں کی طرف سیر کرنے کی بات چھیڑ دی خدا نے مجھے ایسے یار دیے تھے جو ان چیزوں کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے ہاں وہ الگ بات ہے معاشی مسئلے ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتے تھے تو خیر پہاڑوں کی دیدار اتوار کے دن طے ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد الوداع (اواری ء قربان) کا میسیج کرکے سوگئےُ۔
میرا پہلا دوست سبزو جان تھا روز اول سے تاحال میں نے اسے ہر مسئلے میں ساتھ کھڑا پایا میں سبزو کو اپنا استاد مانتا ہوں کیونکہ مجھے باشعور بنانے میں سب سے اہم کردار سبزو کا ہی ہے وہ ہم دونوں سے زیادہ مطالعہ کرتا تھا اور زیادہ تر ہم اس کو لائبریری میں ہی پاتے تھے ۔ جب بھی ہم کسی چیز پر تنقید یا بحث کرتے تو وہ پہلے چپ چاپ سب کی سوچ پڑھتا، غور کرتا اور جب خاموشی چاروں طرف چھا جاتی تو وہ اس تنقید کو مزید مفید بنانے کے لیے بول پڑتا ہر موضوع پر بات کرنے کو اس کے پاس ضرور الفاظ ہوتا تھا زیادہ تر فلسفے کی کتابیں اور جنگ کی مطلق مطالعہ کرتا تھا ۔ وہ جب بھی کہیں بھی کوئی کتاب پاتا تو وہ اسے چوری کرتا پھر چاہے وہ دوست کی کتابیں ہو یا لائبری کی شیلف میں پڑا کوئی کار آمد مواد ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اس کا کہنا تھا کہ دوستوں کے پاس اگر کتابیں ہو وہ خود تو مطالعہ کرتے ہیں مگر کسی دوسرے کو مطالعہ کرنے کے لیے نہیں دیتے ہیں اور اگر کوئی کتاب لائبری میں پڑی ہو تو وہ ہر بلوچ کو میسر نہیں ہوتا ہے کیونکہ لائبریری میں ہر کسی کے پاس ممبرشپ کارڈ جو نہیں ہوتا اس کا کہنے کا مقصد اصل میں یہ تھا کہ ہر بلوچ کو کتابیں فراہم کرنا ہمارت فرض ہے تو لہذا یہ عمل میرے نزدیک غلط نہیں ہے ۔ اس کی یہ عادت مجھے بہت پسند تھا کہ وہ جب بھی کوئی کتاب پڑھتا تو وہ پہلے ہم تینوں کی سرکل میں پھر ہم سے ہمارے دوستوں تک چاند کی طرح گردش کرتا ہی جاتا تھا ۔ سبزو جان ایک فکری اور نظریاتی سنگت تھا اس کا نظریہ اتنا مضبوط تھا اگر یہ اسمان اور زمین ایک ساتھ ملتی تب بھی اس کے نظریے کمزور ہونے کی بجائے اور مضبوط ہوتا تھا اس بات کا اندازہ میں نے تب لگائی جب سبزو کی فیملی کی 12 بندے ریاست نے لاپتہ کیے تھے اور پورا خاندان ازیت کے مارے پریس کلبوں ، احتجاجی ریلیوں میں در در کی ٹھوکریں کھاتا تھا مگر تب بھی وہ ایک نڈر اور بہادری کے ساتھ ایک حقیقی بلوچ کی طرح اپنے نظریے پہ کھڑا تھا مسکراہٹ ہمیشہ اس کی چہرے پر سجی رہتی تھی ہر انسان کو مہر کی نظر سے دیکھتا تھا مگر اس ریاست کے خلاف جو اس کی انکھوں میں نفرت تھی وہ غضبناک تھی اتنا جذبہ کے دشمن کے فوج سے لڑنے کی ہمت تھی سبزو کی فکر اور نظریہ اتنا پختہ تھا کہ جس کے ساتھ بھی انکھیں ملاتا اسے نظریاتی بناتا تھا ۔ میں اپنے اور اپنے دوستوں کی قسمت پر حیران ہوں ہمیں ایسا دوست بطور سنگت کی روپ میں اخر ملا کیسے ؟؟ سبزو کے ساتھ رہ کر ہم نے خود کو، قوم کو اور قومی ذمہ داریوں کو سمجھا اور ہم دونوں اپنے قومی تحریک میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے راستے ڈھونڈنے میں لگے رہتے تھے کہ کہاں ہم فِٹ ہیں۔
میرا دوسرا دوست ریحان جو ہم سب سے زیادہ کمزور مگر توانا تھا تلسمیا کا مریض تھا مگر پھر بھی قومی ذمہ داریوں سے کبھی پیچھے نہیں اٹھتا تھا ریحان جانور تنقید میں ہمیشہ سب سے زیادہ دلچسپی لیتا تھا اور جہاں ہم اسے قائل کر لیتے تھے وہ اپنی غلطیوں کی اصطلاح ضرور کرتا تھا اس کی زندگی کی سب سے اہم اصول ڈسپلن تھا۔ وہ اپنی زندگی میں نہایت ڈسپلن کے ساتھ اپنی ہر کام کو وقت پر سر انجام دیتا تھا اور ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کرتا تھا کہ جب تک انسان کے اندر ایک ڈسپلے میں پیدا نہیں ہوتا اور اس ڈسپلن کا پابند نہیں ہوتا وہ نہ تو ایک اچھا انسان بن سکتا ہے اور نہ ہی اچھا جود کار بن سکتا ہے اور یہ ڈسپلن خود کبھی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے شوق سے نہیں تو زبردستی اپنے اندر پیدا کرنا پڑتا ہے اور تمام ذاتی کاموں کو اور قومی ذمہ داریوں کو وقت پر ہی سرانجام دیتا تھا۔ اس خطرناک مرض کے باوجود کبھی بھی اس نے کسی فرض کو سر انجام دینے سے پیچھے نہیں ہٹا ہزاروں ذاتی مسائل کے باوجود بھی کبھی بھی اُس کی حوصلہ کم نہیں ہوا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے جذبہ اور حوصلہ آسماں کو چھوتا جا رہا تھا
میرا تیسرا دوست جسے پیار سے کماش یعنی سربرا کے کر پکارتے تھے اس کی عربات پر ہنسی سے شروع کر ہنسی پر عیدم توڑ دیتا تھا تماش نے اپنی زندگی میں چار پانچ کتاب سے زیادہ تالا نہیں کیا تھا مگر روزانہ کئی کالم پڑھتا تھا ایک دفعہ ریحان نے اس سے مذاق مذاق میں پوچھا کہ یار خاموش اپ کتاب پڑھنے والوں سے تو متاثر ہوتے ہو اور ان کا حوصلہ افزائی بھی کرتے ہو مگر خود کیوں نہیں پڑھتے ہو تو کماشتے ہوئے کہا یار پتہ نہیں جب بھی کتاب پڑھنے کی نیت سے اٹھاتا ہوں ایک انجام درد میرے پورے جسم میں اٹھ جاتا ہے اور جب میں کتاب واپس رکھ لیتا ہوں تو ٹھیک ہو جاتا ہوں کمش مطالعہ کم کرتا تھا مگر ایک نہایت ہی تجربہ کار بندہ تھا وہ بچپن سے ہی اپنے مامو کے ساتھ پی ایس او ازاد کی سرکل میں جاتا تھا کماشہ میں شاہ میں یہی کرتا رہتا تھا کہ تجربہ ہی انسان کو ہوشیار اور چالاک بناتی ہے اپنے ہر عمل پر غور کرو اور اپنے خوبیوں اور خامیوں کی جائزہ لو اور کوشش کرو ہر عمل کے لیے ایک نیا حکمت عملی اپناؤ۔
اگلی صبح جب ہم چاروں اپنے سفر کے لیے روانہ ہوئے تو چاروں ہنستے مسکراتے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ آبادی سے نکل کر جب اونچے اونچے پہاڑوں پر قریب سے نظر پڑا تو ہم سب اپنے اپنے دنیا میں اپنے دنیا سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے۔ جب میں غور سے ان پہاڑوں کی طرف دیکھتا رہا تو مجھے ان پہاڑوں کی انکھوں میں نم آنسو مگر پھر بھی ایک مہر محبت سے مجھے اس گور رہے تھے جیسے کوئی اپنے محبوب کو ہر نظر میں ایک نئے صورت میں دیکھتا ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ پہاڑ نہ جانے کہیں سالوں سے ہمارے انتظار میں تھے۔ جب ہم اپنی اخری منزل کو پہنچ گئے تو تھوڑی دیر کے بعد خاموش نے ہمیں چائے پیش کیا اور میں نے کہا اخرم اپنی منزل پہنچ ہی گئے تو ریحان نے کہا یہ اس وقت ہماری منزل ہوگی جب ہم گھر سے تو ائے مگر واپس نہ جائے ریان بات کر کے کرتے کرتے اس کی انکھوں میں انسو اگے جب سب سے جانیں کہا وطن کے لیے انسو نکلنا بھی بڑی چیز ہے تو ریان ایک دم جذبے میں ا کر کہا اگر اپنے جسم کی خون کی اخری قطرہ بھی اس سرزمین کے لیے بہا دیا جائے تب بھی ہم اس مٹی کا حق ادا نہیں کر سکتے تو تم کس طرح یہ کہہ سکتے ہو کہ ایک قطرہ انسو گرانے سے وطن کی اک ادا ہو سکتا ہے اس وقت مجھے عشق سمجھ اگیا کہ کوئی کس طرح وطن سے عشق کرتا ہے۔ دو دن کے دوران ہم چاروں نے اپنے وطن کی بے شعوری محرومیوں خامیوں سماجی سیاسی اور جنگ اور بہت سے ایسے موضوعات پر تبصرے کئے جن کا تعلق ہماری سرزمین اور ہماری لوگوں سے تھا۔
اگلی شام جب ہم پہاڑوں سے رخصت ہوئے تو سبز و جان پہاڑوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ جلدی ملیں گے واپس روانہ ہوئے تو میں نے کہا ہمارا مستقبل یہ پہاڑ ہوں گے ضروری انشاءاللہ اور واپس اپنے سفر کے لیے روانہ ہو گئے رات کے قریب دس بج رہے تھے کہ ہم شہر پہنچ گئے شہر میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایف سی کی چوکی والوں نے ہمیں روک لیا ہم سے پہلے بھی کچھ شعریوں کو روکا گیا تھا ان کے وہی روایتی سوال تھے کہ (کہاں سے آرہے ہو کہاں جا رہے ہو اور شناختی کارڈ کدھر ہے) ہم چپ چاپ سڑک کے کنارے اپنا تلاشی دے رہے تھے کہ ایک موٹرسائیکل پر دو اور بندے گزر رہے تھے ان کو بھی لائٹ دے کر رکنے کا اشارہ کیا اور رکتے ہی پشتو زبان میں بولے کہ ہم سورس کی بندے تو ایک فوجی مسکرا کر اسے جانے کا اشارہ کیا اس عمل کو دیکھ کر ہم تینوں کو بہت غصہ آیا مگر ہم سب چپ چاپ کھڑے تھے سبز و جان برداشت نہیں کر سکا فوجی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ؟ قانوں تو سب کے لیے برابر ہوتا ہے تو اس فوجی نے ان بندوں کو ہم سے پہلے کیوں جانے دیا اور ان کی چیکنگ بھی نہیں کی گئی تو ایک ایف سی والا بڑک اٹھا اور گالی دینا شروع کیا سبزو کو گریباں سے پکڑ کر اس کو گاڑی کی جانب گھسیٹنا شروع کیا تو تو بزرگ بھی ہمارے ساتھ کھڑے تھے ان بزرگوں اور ہماری ہزار مِنتوں کے بعد بھی اسے نہیں چھوڑ رہا تھا اور گالی دے رہا تھا تو ان بزرگوں میں سے ایک نے اپنا پگڑی اتار کر اس کی قدموں میں رکھ دیا پھر نہ جانے واکی ٹاکی میں اسے کیا آرڈر دیا گیا وہ فورا گاڑی میں سوار ہو کر گالی دیتے ہوئے چلے گئے جب ہم واپس گھروں کی طرف روانہ ہوئے تو کماش نے بولا یہ ہماری خوش قسمتی سمجھو کہ دشمن اپنے لیے اور بھی نفرت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر رہا ہے اور تقریبا ساڑھے گیارہ بجے ہم سب ایک دوسرے سے الگ ہو کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ تین دن کے بعد جب میں نے گروپ میں میسج کیا تو ریحان نے جواب دیا کہ یار آؤ بیٹھتے ہیں کہیں پھر حال حوال کرتے ہیں اور آپ سے ایک ضروری کام بھی ہے جب اس کے بتائے ہوئے جگہ پر میں اس سے ملنے گیا تو میں نے سبزو اور کماش کا پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ دونوں کل ہی باقی سنگتوں کے پاس گئے ہیں اور پیغام بھی پہنچایا کہ ہم خیریت سے پہنچ گئے ہیں ۔
جاری
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں