شام کے باغی رہنما احمد الشرا کا کہنا ہے کہ ان کا ملک جنگ کی وجہ سے تھک چکا ہے اور وہ اپنے ہمسایہ ممالک یا مغرب کے لیے خطرہ نہیں ہے۔
بی بی سی کو دمشق میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں شام پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ، ’اب جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد پابندیاں اٹھا لینی چاہیئے کیونکہ یہ سابقہ حکومت پر لگائی گئی تھیں۔ مظلوم اور ظالم کو ایک ہی لکڑی نہیں ہانکنا چاہیئے۔‘
ابو محمد الجولانی کے نام سے پہچانے جانے والے احمد الشرا شامی باغی گروہ ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ہیں جو شامی باغی گروہوں میں سب سے طاقتور ہے۔ ان کی قیادت میں باغی گروہ سابق شامی صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہیئت تحریر الشام کوئی دہشتگرد تنظیم نہیں اور اس کا نام دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دینا چاہیے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے ہیئت تحریر الشام کا نام دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالا ہوا ہے۔ احمد الشرا کی تنظیم ابتدائی طور پر القاعدہ سے منسلک تھی۔ 2016 میں ہیئت تحریر الشام نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
احمد الشرا کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں یا شہری علاقوں کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ ’ہم تو خود کو بھی اسد حکومت کے ظلموں کا شکار مانتے ہیں۔‘
دوران انٹرویو احمد الشرا سے سوال کیا گیا کہ کہیں شام میں خلافت تو قائم نہیں کی جائے گی یا اسے افغانستان کی طرز کی ریاست تو نہیں بنا دیا جائے گا یا وہ طالبان کی طرح تو پیش نہیں آئیں گے۔
اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملک یکسر مختلف ہیں۔ ’ہمارا طرزِ حکومت بالکل مختلف ہے۔ افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے جبکہ شام بالکل مختلف ہے۔ [دونوں ملکوں کے] لوگ ایک طرح سے نہیں سوچتے۔ شام کی حکومت اور حکومتی نظام ہماری تاریخ اور ثقافت کے مطابق ہوگا۔‘
احمد الشرا کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کی تعلیم کے حق میں ہیں۔
شام کے شمال مغربی صوبے ادلب کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہاں آٹھ سال سے یونیوسٹیاں چل رہی ہیں۔ 2011 سے ادلب باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔
انھوں نے دعوی کیا کہ ان یونیورسٹیوں میں خواتین کا تناسب 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا شام میں شراب پینے کی اجازت ہوگی تو ان کا کہنا تھا، ’بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں میں بات نہیں کر سکتا کیونکہ یہ قانونی معاملات ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ قانونی ماہرین کی ایک ٹیم شام کا آئین تشکیل دے گی۔ ’وہ فیصلہ کریں گے۔ کسی بھی حاکم یا صدر کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوگا۔‘
انٹرویو کے دوران احمد الشرا پرسکون دکھائی دیے۔ انھوں نے بارہا ان لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش جن کو شبہ ہے کہ ہیئت تحریر الشام اب بھی ماضی کا پر تشدد گروہ ہے۔
تاہم اب بھی بہت سے شامی شہری ان پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
آنے والے مہینوں میں نئی شامی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے پتا چلے گا کہ وہ شام کو کیسا ملک بنانا چاہتے ہیں۔