موجودہ حالات، ٹیکنالوجی اور تعلیم کی ضرورت
تحریر: ماہ نور بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
موجودہ حالات کو دیکھ کر فکشن لکھنے کی جستجو تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ دنیا جس تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اتنی ہی تیزی سے انسان کا امن و سکون سے جینا مشکل بن چکا ہے۔ بلوچستان میں جاری جنگ نے بلوچ قوم کے لیے مزید اذیت اور پریشانیوں کو جنم دیا ہے، جہاں امن کا نشان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ یہ جنگ کب ختم ہوگی؟ یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں ہے، مگر اس کا جواب کہنا مشکل ہے۔
ان مشکل حالات میں، بلوچ نوجوانوں کے لیے اپنی آنکھیں کھولنا، موجودہ حالات سے باخبر رہنا، اور آنے والے چیلنجز کے لیے خود کو تیار کرنا بے حد ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں اگر آپ اپنے اندر کی کمی کو پورا نہیں کرتے، اگر آپ نے خود کو جدید ایجادات اور ٹیکنالوجیز میں شامل نہیں کیا، تو آپ ترقی کے اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔
مستقبل کے امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے، بلوچ نوجوانوں کو اس وقت مزید آگے بڑھنا ہوگا، جدید ایجادات میں حصہ لینا ہوگا، اور ترقی کی ہر اس سطح پر قدم رکھنا ہوگا جہاں ترقی پسند اور قدامت پسند میں فرق دکھائی دے۔ بلوچستان اگر اس حالات میں آزاد بھی ہو جائے، تو کیا بلوچستان اپنے عوام، اپنے اداروں کو سنبھال پائے گا؟ کیا بلوچستان کا حال جنوبی کوریا کی طرح ہوگا، یا پھر شام کی طرح جہاں ملک کا بٹوارہ ہو چکا ہے؟ کیا بلوچستان بھوک اور افلاس کی خوفناک حالت سے خود کو بچا سکے گا؟ کیا ہم دو وقت کی روٹی پیدا کر سکیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے ذہنوں میں روزانہ ابھرتے ہیں، اور ان کے جوابات ملنا اکثر مشکل لگتا ہے۔
دنیا ٹیکنالوجی کی میدان میں جس تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اس کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گوگل نے حال ہی میں کوانٹم کمپیوٹر ایجاد کر لیا ہے۔ کوانٹم کمپیوٹنگ ایک انقلابی ٹیکنالوجی ہے کوانٹم کمپیوٹنگ، کمپیوٹر سائنس کی ایک ایسی جدید ترین شاخ ہے جو کلاسیکل کمپیوٹرز سے مختلف کام کرتی ہے۔ جہاں روایتی کمپیوٹرز معلومات کو بائنری انداز میں پروسیس کرتے ہیں، وہیں کوانٹم کمپیوٹرز میں معلومات کو کوانٹم بٹس یا کیوبٹس کی شکل میں پروسیس کیا جاتا ہے۔
کوانٹم کمپیوٹرز کے کیوبٹس اپنی حالت کو ایک وقت میں متعدد جگہوں پر لے جا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بڑی پیچیدہ حسابات کو تیزی سے اور مؤثر طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک مثال کے طور پر، اگر آپ کسی روایتی کمپیوٹر کو ایک پیچیدہ ریاضیاتی مساوات حل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو وہ ہر ممکنہ نتیجے کو ایک ایک کر کے چیک کرے گا، لیکن ایک کوانٹم کمپیوٹر ان تمام ممکنہ نتائج کو ایک ہی وقت میں تجزیہ کر کے اسے تیز تر اور مؤثر انداز میں حل کر سکتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ کئی شعبوں میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے، جیسے بگ ڈیٹا اینالیسس، میڈیکل ریسرچ، مٹیریل سائنس، اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے میدان میں۔
آج دنیا میں سب سے زیادہ توجہ جس ٹیکنالوجی پر دی جا رہی ہے، وہ ہے آرٹیفیشل انٹیلیجنس۔ یہ ٹیکنالوجی کمپیوٹرز اور مشینوں کو انسانوں کی طرح سوچنے، سیکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ آج کے دور میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال مختلف شعبوں میں کیا جا رہا ہے جیسے ہیلتھ کیئر، خودکار گاڑیاں، صنعتی پیداوار، زبان کی پروسیسنگ اور ڈیٹا اینالیسس۔
جدید ٹیکنالوجیز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ، سائبر سیکیورٹی کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ سائبر سیکیورٹی ان تمام طریقوں کو شامل کرتی ہے جو ڈیجیٹل معلومات اور نیٹ ورک کو غیر مجاز رسائی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ خصوصاً کاروباری اداروں اور حکومتوں کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ڈیٹا اور نظام کو ہیکنگ، ڈیٹا چوری، اور دیگر سائبر خطرات سے بچا سکیں۔
امریکہ، چین جیسے ممالک ان میں بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ انڈیا بھی پیچھے نہیں، مگر کیا پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے؟ پاکستان اب وہ صلاحیت نہیں رکھتا جو کسی نئی ایجادات پر مالی اخراجات کر سکے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا ممکنہ ٹوٹنا قریب ہے۔ پھر یہی سوال اٹھتا ہے: کیا بلوچستان خود کو سنبھال سکے گا؟ کیا بلوچستان داخلی جنگوں سے بچنے میں کامیاب ہو سکے گا؟
یہی وقت ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے لیے تیاری کریں۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو جزباتی انداز میں خود کو ضائع کر رہے ہیں، جو ایک ہی راستے پر چل کر بس اُسی میں مگن ہیں اور جنہیں حل صرف بندوق کی شکل میں دکھائی دے رہا ہے۔ بندوق کا راستہ غلط نہیں، اور نہ ہی ان لوگوں کا راستہ غلط ہے جو اس راستے پر چل رہے ہیں۔ یہ نوجوان اپنے اصولوں کے مطابق قربانی دے رہے ہیں، اور ان کی قربانیوں کی قدر کی جانی چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج کے دور میں یونیورسٹیوں میں موجود نوجوانوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ جو ڈگریاں لے کر نوکریوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، یا بلوچستان کے نام پر ناکام سیاست کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں؟
بلوچستان کے نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا کہ صرف سیاسی جلسوں اور محفلوں میں باتوں سے کچھ نہیں بدلے گا۔ وہ جو بلوچستان کے بارے میں ہر محفل میں بات کرتے ہیں، انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان کو اس کے نوجوانوں کی محنت، لگن اور علمی میدان میں کارکردگی سے ہی ترقی مل سکتی ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک پل کے بغیر، محنت اور لگن سے اپنے شعبوں میں خود کو بہتر بنانا ہوگا۔ سرف ماسٹر ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اپنی تعلیم کو نہ روکا جائے، بلکہ پی ایچ ڈی تک اپنی تعلیم کو جاری رکھا جائے۔
بلوچستان کو بہترین سائنسدانوں، سیاستدانوں، بہترین ڈاکٹروں، انجینئروں اور ٹیکنیشنز کی ضرورت ہے، جو زمین سے لے کر آسمان تک کے مسائل حل کر سکیں۔ بلوچ نوجوانوں کو اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، بلکہ انہیں جنون سے اپنے ہر فن کو اپنانا چاہیے اور اپنی ہر ہنر کو مزید بہتر بنانا چاہیے۔
سیاسی پارٹیاں بلوچستان کے لیے کچھ نہیں کر سکتیں، مگر اگر کچھ کر سکتی ہیں تو وہ یہ کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو بیرون ملک اسکالرشپ فراہم کر کے انہیں پروفیشنل بنایا جائے، تاکہ وہ واپس آ کر بلوچستان کی خدمت کر سکیں۔ آج بھی جتنی سیاسی پارٹیاں یا عسکری تنظیمیں ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنی تمام قوت کو نئی ٹیکنالوجیز جیسے سائبر سیکیورٹی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر لگائیں، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچ نوجوان عالمی سطح پر اپنی شناخت بنا سکتے ہیں۔