بلوچستان کی ثقافت روایات اور ریاستی چالبازیوں کا ایک جائزہ ۔ نصیب بلوچ

113

بلوچستان کی ثقافت روایات اور ریاستی چالبازیوں کا ایک جائزہ

تحریر : نصیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سرزمین ہمیشہ سے اپنی قدیم تہذیب، ثقافت، روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ بلوچ قوم کے روایات ان کی عزت، غیرت اور اخلاق سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ روایات بلوچ قبائلی معاشرتی ڈھانچے کا حصہ ہیں، جو برابری، سخاوت اور امن کے اصولوں کو فروغ دیتی ہیں۔ بلوچ قوم اپنی سوشل اور سیاسی عادات کو بہت اہمیت دیتے ہیں، جو ان کی قومی شناخت کو مضبوطی سے جڑے رکھتے ہیں۔بلوچ معاشرت میں عورت کو بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ یہاں تک کہ شدید دشمنی کے باوجود بھی کسی دوسرے کے گھر پر حملہ یا عورت کو نشانہ بنانا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرگے میں مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ ان روایات کی بنیاد پر بلوچ معاشرے میں بہت سی خونریز قبائلی جنگوں کو ختم کیا گیا ہے۔ عورت کی عزت کی حفاظت نے بلوچ معاشرے میں امن کی فضاء قائم رکھی ہے۔

مگر گزشتہ 75 سالوں سے بلوچ قومی شناخت کو مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بلوچ قوم کی نسل کشی بلا خوف جاری ہے اور بلوچ کی تہذیب، ثقافت اور روایات کو ختم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ زبان، مذہبی فرقہ واریت، اور قبیلی زئی پرستی کے ذریعے بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ براہوئی اور بلوچی زبان کو قوم کا نام دے کر بلوچوں کو دو حصوں میں بانٹنے کی سازشیں کی جارہی ہیں، جس سے بلوچ قوم کا اتحاد کمزور ہو رہا ہے۔بلوچستان میں ان تمام سازشوں کے باوجود، بلوچ قوم اپنے روایات اور ثقافت کو بچانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ ان روایات اور ثقافتوں کا مقصد بلوچ معاشرت میں امن قائم کرنا اور بلوچ قوم کی شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔

زبان،مزہبی فرقہ واریت,اور قبائلی زئی پرستی کے نام پر بلوچ کو تقسیم کیا جارہا ہے۔زبانوں کا استعمال بلوچ کو تقسیم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ براہوئی اور بلوچی بلوچ قوم کی دو مادری زبانیں ہے۔ مختلف علاقوں میں اپنے کارندے استعمال کرکے براہوئی اتحاد یا بلوچی اتحاد بناکر زبانوں کو قوم کا نام دیکر بلوچ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کوشش کی جارہی ہے۔

پھر ان کو بھی اور حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔

انگریزوں کے فارمولے اپ گریڈ کرکے آزماے جارہے ہے۔

بلوچستان کو ہمیشہ سے سرداری نظام نے بھاری نقصان دیا ہے۔

لیکن ہر الزام سرداروں پر نہیں ڈالا جاسکتا۔

روبرٹ سنڈیمن کے چال کو مدٕ نظر رکھتے ہوئے ۔ قبیلوں کے سربراہان کو مراعات اور اقتدار دیکر اپنا وفادار بنایا جاتا ہے۔اور جو سردار بات ماننے سے انکار کی مجال کرے ۔تو اس پر مختلف کیسس بنا کر اس کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔یا پیچھے سے کسی کو مکمل سپورٹ کرکے اس کے اس کے ساتھ زبردستی جنگ شروع کروائی جاتی ہے۔ پارلیمانی نظام کا حصہ ہوا تو اپنی نشست بھول جائے ۔ اس سے کچھ نہیں ہوا تو اس کے قبیلے میں کسی چور و چکے کو دوسرا سربراہ بناکر اس کے ہاتھ میں مراعات اور اقتدار دیکر پہلے سربراہ کو زیرو بناکر اس کے قبیلے کو تقسیم کیا جاتا ہیں۔اس کے لیے ہر طرف سے زمین تنگ کرکے اس کو اپنا وفادار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر پھر بھی نہ مانا یا تو جلا وطن رہے۔ یا جیل میں رہے۔ پھر بھی نہیں مانا۔ اسے غدار قرار دیا جائیگا اور اس کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتاکر مارکر اس کو باقیوں کے لیے نشان عبرت بنایا جاتا ہے۔اس کے لاش کو بھی تالا لگا کر لایا جاتا ہے۔

قبیلوں کو شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

پھر انہی شاخوں کے اوپر نٸے ٹکری میر و رئیس بٹاکر ان کو اپنے ساتھ وفاداری کے مطابق غریب عوام کے ٹیکس سے خوب نواز کر تعلیم یافتہ اور قابل نوجوانوں کے لیے سارے راستے بند کر دیے جاتے ہیں سوائے ایک راستے کے چمچہ گیری(بوٹ پالش )_ قبیلوں کو قبیلوں سے ان کے زئی کو زئی سے جب بھی دل چاہے اپنے مقصد کے لیے لڑایا جاتا ہے۔پھر کسی اپنے بنائے ہوئے سربراہ میر و متعبر سے ان کے جنگوں کا فیصلہ کرواکر قبیلوں کو ان کا مقروض بنایا جاتا ہے۔ تا کہ اس کے الیکشن کا بھی کام ہوجائے ۔

اور انہی وفاداروں کے ذریعے وہ لوگ جو 5 یا 6 سال سے لاپتہ ہے۔ ان کے خاندانوں سے سودے بازی کرکے الیکشن کے قریب آتے ہی ان کو کہا جاتا ہے۔ آپ اپنے خاندان کا ووٹ ہمیں دے آپ کے پیاروں کو لایا جائیگا ۔ لوگ مجبور ہوکر ووٹ دے دیتے ہے۔ لیکن بعد میں ان کی قسمت ہے۔ کچھ کے دعا کام کر جاتے تو ان کے پیاروں کو لولا لنگڑا بناکر لے آیا جاتا ہے۔ جو بعد میں گھر سے باہر نکلنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔انہی انگوٹھا چاپ, چور, لوفر وفاداروں کو پورا لائسنس دیا جاتا ہے کہ وہ جتنے بھی شریف غریب بیوا, یتیموں کے زمینے اور جائداد قبضہ کرکے ہمیں بھی کھلاؤ خود بھی کھاؤ ۔ اپنے الیکشن کے بھی پیسے بناؤ ۔ اور الیکشن قریب آتے ہی یہی غریب عوام کا لوٹا ہوا۔ پیسا عوام پر خرچ کرکے بڑے جاگیرداروں کو کروڑوں میں اور چوٹوں کو لاکھوں میں اور مڈل کلاس کو ہزاروں میں اور غریب کو بریانی کے پلیٹ پر خرید کر الیکشن لڑتے ہے۔ اور پھر بھی ہار گئے تو دو دن غریبوں کو روڈ پر بٹھا کر کروڑوں میں نسشست خرید کر اسمبلیوں میں جاتے ہے۔ اور ادھر اپنا بینک بیلنس چار گناہ کرکے بلوچ قوم کے وسائل اور جان کا سودا لگاتے ہے۔

بلوچ قوم کی ثقافت کو تو بہت طریقوں سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستانی ٹیلیویژن پر میڈیا چینلز پنجابی پروگرام، ڈرامے اور گانے دکھا اور سنا کر بچپن سے دوسرے قوموں کے نئی نسل کو اس کی ثقافت سے دور رکھتے ہیں۔بلوچ ثقافتی کوئی پروگرام پاکستانی میڈیا چینلز پر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

اسکولوں کے سلیبس میں بلوچ کی تاریخ کا ذکر نہیں نا کہ کسی بلوچ لیڈر، شاعر، ادیب کا ذکر ہے۔بلوچستان کے اسکولوں میں بلوچی براہوئی پڑھنا لکھنا شاید اساتذہ کو بھی نا آئے۔ دہواری بلوچی کو تو لوگ ابھی تک فارسی سمجھتے ہے۔پورے پاکستان میں دو مارچ کو بلوچ کلچرل ڈے کا نام دے کر بلوچ کی ثقافت کو ایک دن کے لیے محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ بلوچ ہر دن اپنے ثقافت میں ہوتا ہے۔

سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے بلوچستان میں مذہبی منافرت فرقہ وارانہ منافرت پھیلایا جاتا ہے۔ اپنے کارندوں کے زریعے مذہبی نفرت پراپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کو پھیلا کر سوشل میڈیا, پرنٹ میڈیا کے زریعے کم عمر نوجوانوں کو مذہبی یا فرقہی انتہا پسند بنایا جاتا ہے۔ پھر سیاسی مقاصد کے خاطر ان کا برین واش کرکے ان کو جب جی چاہے مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر استعمال کرکے صوبے کا امن خراب کیا جاتا ہے۔ مفتیوں سے اپنے من مرضی کے فتوے بھی جاری کروائے جاتے ہے۔

اس خوشگوار ماحول کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والا غدار بلوچ عوام کے حال کا 75 سالہ تاریخ گواہ ہے۔وہ اچانک سے پتا نہیں کہاں چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے خود کو مسخ کرکے اپنی لاش کو کئی خود پھینک دیتے ہے۔ اپنے پیاروں کو بتائے بغیر اور ان کے غدار فیملیز کو پتا ہی نہیں ہوتا۔ وہ بھی انہی پاگل فیملیز کے ساتھ ان کے انتظار میں ہر دن روڈوں پر بیٹھ کر مزے کررہی ہوتی ہیں۔ جو پروپیگنڈہ کر رہی ہوتی کہ ان کہ غدار پیارے اس خوشگوار ماحول کے بارے بھول کر 8 سال 12 سے ٹارچر سیلوں میں بند ہے۔ آخر 5 یا 6 سال روڈوں پر بیٹھ پولیس کے ڈنڈوں, آنسوں گیسوں اور واٹر ٹینک اور شیلنگ کے ساتھ کھیل کر ۔ ان کو پتا چلتا ہے کہ بلوچستان کہ کسی کونے میں کوئی سال دو سال پرانی لاش پڑھی ہے اور وہ ہڈیوں کے DNA کر کراکر پہچان جاتے اور ہسی خوشی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے پیاروں کو دفناتے ہے۔

بلوچستان کے جتنے بھی سرداران ہے۔ خان و یا چیف آف ساروان و یا جھالوان یہ سب الیکشن قریب اتے ہی اپنے حلقوں کے چکر لگانا شروع کر دیتے ہے۔ جہاں بھی جاتے ہے بڑی بڑی باتیں کرتے الٕیکشن کے وقت قوم پرست بن جاتے ہے۔ الیکشن کے بعد 4 سال تک دوربین میں بھی نہیں دیکھتے ۔ کوئی ان سے سوال کرے تو کہتے ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں جو ہورہا ہے اوپر سے ہورہا ہے۔ بھائی جب تمہارے ہاتھ کچھ ہے نہیں تو تم پارلیمانی سیاست کیوں کررہے ہوں جب تمہیں اختیار ہی نہیں۔لوگ تو تمہیں ووٹ دے کر اپنا سارا اختیار تمہیں دیتے ہے اگر تمہیں اختیار نہیں تو تم ایوانوں میں کیا کررہے ہو۔ لیکن الیکشن قریب آتے ہی پھر ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ اب کی بار یہ جیت گئے تو ان کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ اختر مینگل پورے 4 سال جیت کر بھی وفاق میں صوبے گورنمنٹ کا حمایتی ہو کر بھی روتا ہے۔کہ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ لیکن اگلا الیکشن قریب آتے ہی اختر کی باتوں سے لگتا ہے کہ اس بار اس کو ووٹ دیا تو بلوچستان ساری محرومیاں ختم کردیگا۔ لیکن الیکشن جیتے ہی پھر سے اس کا رونا دونا شروع ہوجاتا ہے۔اصل میں یہ سب اقتدار کے بھوکے ہے۔ سب ان کے ڈرامےبازیاں ہے۔

بلوچستان میں ہر سال ہزاروں لوگ قباہلی جنگوں میں مرتے اور 99% لوگ بے گناہ مرتے کیونکہ جس نے کسی کو مارا ہے وہ تو کئی بھاگ جاتا ہے اس کے بدلے میں جو مرتا وہ اس کا بھائی ہوگا یا کزن ہوگا یا اس کا تعلق اس کے زئی سے ہوگا یا اس کہ قبیلہ سے ہوگا۔ ایسے لاکھوں بے گناہ لوگ بلوچستان میں ان خونی تنازعات کا بغیر کسی جرم کئے شکار ہوچکے ہے۔ حتاکہ شریعت بھی یہی کہتا ہے کہ خون کا بدلہ صرف اس سے لیا جاسکتا ہے جس نے خون کیا ہے۔ اور بلوچ معاشرے میں ہر سال قبائلی جنگوں میں اسی وجہ سے اضافہ ہوتا آرہا ہے۔ قاتل کو پہلے سے حوصلہ ہے کہ میں اگر کسی کو ناجائز بھی ماروں تو میرے پیچھے میرا قبیلہ یا زئی کھڑا ہے۔ اور اس کے گناہ کی سزا کاٹتے ہے اس کے رشتے دار یا زئی کے لوگ برسوں تک گھر میں رہ کر ان کی جوانی الگ برباد اور کاروبار تباہ آمدنی ختم اور یہ سب کسی اور کی جرم کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہے۔ کسی تڈے یا ٹماٹر کے اوپر شروع ہونے والی لڑائی پر درجنوں افراد مارے گٸے ہے۔ بلوچستان کے خان چیف آف ساروان یا جالاوان سرداران اقتدار کے نشے سے اتر جائے جو اس طرح کے مسائل پر غور کرے۔ایسے مسئلوں میں مراعات اور اقدار نہیں تو اس کو حل کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں انکو۔

کہا جاتا ہے کہ ایک نسل کی غلط حرکتیں دوسری نسل کی عادت، تیسری نسل کی فطرت اور چوتھی نسل کی روایت بن جاتی ہیں۔ یہ حقیقت بلوچ معاشرت میں بھی نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں بعض جاہلانہ فطرتوں کو بلوچ قوم کے اندر زبردستی داخل کیا گیا ہے، جو کہ بلوچ کی اصلیت اور روایات سے متصادم ہیں۔

کسی نسل کی غلطیوں یا کمزوریوں کو اگلی نسلیں اپنی عادت بنا لیتی ہیں، اور یہ سلسلہ نسلوں تک جاری رہتا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک نسل کو کم سمجھا جاتا ہے، اور ان کی محنت یا کام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، ان افراد کی محنت اور جدو جہد اگلی نسل کے لیے ایک کامیابی کی صورت بنتی ہے۔ مثلاً کہ ایک نسل کو لھوڑی بھول کر کم سمجھا جاتا ہے۔وہ بیچارہ نسلوں سے ڈھول بجھانے سے آگے نہیں گیا۔ اس کو انسان تک نہیں سمجھا جاتا۔

کچھ لوگ آج کل اپنے قوم و قبیلہ سے بھی زیادہ اپنے آپ کو فلا زئی بتانے میں فخر محسوس کرتے ہے۔ دوسروں پر تنز کرتے کہ فلا بندا بلوچ نہیں فلإ بندا مجھ سے کم ہے۔فلا ٕ بندا اب جاکر بلوچ بنا ہے پہلے کسی اور قوم سے تھا۔ اگر قوموں میں یا قبیلوں میں نٸے بندوں کو خوشامد نہیں کرتے تو آج بڑے سے بڑا قوم بھی ایک خاندان تک محدود رہ جاتا۔

کسی کو کامیابی کے مقام پر دیکھ کر کہا جاتا ہے۔ اس کا باپ آلو بیجھا کرتا تھا یا موچی تھا۔ جو بھی بیجا کرتا اس کے بیٹے نے تو محنت کی ہوگی۔ کچھ افراد اپنے قبیلے یا قوم سے زیادہ اپنے آپ کو غیر قوم یا دوسرے طبقوں کے ساتھ جوڑ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہی قوم و قبیلے کو کمتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کو اپنی برتری کی بنیاد پر نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، بلوچ روایات عزت، غیرت، اخلاق اور سخاوت کی تعلیم دیتی ہیں، اور ان اصولوں کے تحت ہر فرد کو برابر کا مقام دیا جاتا ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کچھ علاقوں میں خواتین کو پڑھنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور ان کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بلوچ معاشرت میں خواتین کے حقوق کی قدر کی جاتی ہے، عورت کو نا پڑھا کر کہا جاتا ہے بلوچ اپنے عورت کو نہیں پڑھاتا۔

اور اگر کسی میں کوئی ایسا کلاء ہے۔ جو اس علاقے میں کوئی نہیں کرتا۔تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔مثلًا کہ کسی کی آواز اچھی ہے تو اس کے گھانے پر تنض کیا جائیگا ۔ بہت سے لوگ یہ بات کرتے ہے کہ ہتھیار بلوچ کا زیور ہے۔ ہتھیار کی جگہ قلم زیور بولتے تو ان کے نسلوں کا فائدہ ھوتا۔

یہ سب جاہلانہ حرکات لوگ اپنے بچوں کہ سامنے کرتےہے۔ اور پر اس حرکت کو نسل در نسل عادت سے فطرت اور فطرت سے روایت بنے میں وقت نہیں لگتا۔حتاکہ ایسی روایات کا بلوچ روایات سے نا کوئی تعلق نہیں نا ہی ان کا کئی ذکر ہے۔

بلوچ قوم کی اصل روایات میں ہر فرد کا احترام، سخاوت، برابری، اور محبت شامل ہے۔ لیکن افسوس کہ کچھ لوگ ان جاہلانہ حرکات کو نسل در نسل منتقل کرتے ہیں، جس سے روایات کی اصل روح متاثر ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان روایات کی اصل حقیقت کو سمجھیں اور آنے والی نسلوں کو ان اصولوں کی اہمیت سکھائیں تاکہ بلوچ معاشرت اپنی اصل جڑوں پر قائم رہ سکے۔