روزنامہ جنگ میں شائع پاکستانی نامہ نگار اعزاز سید کے رپورٹ کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان مثالی تعلقات حالیہ برسوں میں نئے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، جو ان کے تاریخی تعاون کو ایک مشکل دورائے پر لے جا سکتے ہیں۔ تین بنیادی عوامل ان تعلقات میں تبدیلی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
اعزاز سید کے رپورٹ کے مطابق چین کو سی پیک (چین-پاکستان اقتصادی راہداری) کے تحت منصوبوں کی سست پیشرفت پر تشویش ہے۔ گوادر پورٹ کی مکمل فعالیت میں تاخیر اور بنیادی ڈھانچے کے دیگر منصوبوں پر عملدرآمد میں رکاوٹیں چین کے عدم اطمینان میں اضافہ کر رہی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان میں چینی شہریوں پر ہونے والے مسلسل حملے چین کے لیے گہری تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
حالیہ پاکستانی وفد کے چین کے دورے کے دوران چینی حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان حملوں کی مشترکہ تحقیقات ضروری ہیں چینی حکام نے پاکستانی وفد کو بتایا ہے کہ پاکستان میں چینی شہریوں کی ہلاکتوں سے پورے چینی سماج پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ ان خاندانوں میں زیادہ تر بچے واحد اولاد ہیں، جن کا نقصان پورے خاندان کے لیے ناقابل برداشت صدمہ بن جاتا ہے۔
چینی ماہرین نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کو چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ جب پاکستانی وفد نے حملوں میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کا ذکر کیا، تو چینی حکام نے کہا کہ وہ اس کے ٹھوس شواہد چاہتے ہیں اور سیکیورٹی مسائل پر شفافیت کو اہمیت دیتے ہیں۔
بلوچستان میں شورش اور سی پیک پر اثرات
بلوچستان میں جاری شورش پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر بلوچ آزادی پسند گروپ سی پیک منصوبوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو چین کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی کی کاروائیاں
بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے سی پیک منصوبوں، چینی کارکنوں، اور چینی تنصیبات کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔
رواں سال اکتوبر کے شروعاتی ہفتے میں بلوچ لبریشن آرمی نے ایک خودکش حملے میں کراچی ائیرپورٹ کے قریب چینی سرمایہ کاروں اور سی پیک وفد ایک قافلے کو نشانہ بنایا تھا، اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے اہلکاروں کر پہلی بلوچ خاتون فدائی شاری بلوچ نے حملے میں نشانہ بنایا جس میں میں تین چینی شہری ہلاک ہوئے، یہ بی ایل اے کی مہلک کارروائیوں میں سے ایک تھی۔
گذشتہ سال گوادر کے پوش علاقے میں چینی شہریوں کے قافلے پر حملہ بھی ان کی کاروائیوں کی ایک واضح مثال ہے، جس نے پاکستان اور چین دونوں کی سیکیورٹی پالیسیوں کو سخت چیلنجز سے دوچار کیا جبکہ اس سے قبل 2021 میں بی ایل اے مجید برگیڈ نے ایک ‘فدائی’ سربلند عرف عمر جان نے خودکش جیکٹ کے ذریعے سی پیک پروجیکٹ سے منسلک چینی انجینئرز کی گاڑی کو دھماکے میں نشانہ بنایا تھا۔
اسی طرح، 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے نے چینی حکام کو پاکستان میں اپنے منصوبوں اور شہریوں کی حفاظت کے بارے میں شدید خدشات میں مبتلا کر دیا۔
بی ایل اے اور سی پیک کے خلاف حملے
بلوچستان کی سب سے متحرک اور مہلک حملے کرنے والی آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سی پیک کو بلوچستان کے وسائل کے استحصال کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے اپنی خودمختاری کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے۔
بی ایل اے کا مؤقف ہے کہ سی پیک کے تحت منصوبے مقامی آبادی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہے، بلکہ صرف چین اور پاکستانی ریاست کے مفادات کو تقویت دے رہے ہیں۔
پاکستان اور چین کے تعلقات کی نزاکت
چین کی حکومت نے متعدد بار پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنے دیرینہ اتحادی کے ساتھ تعاون جاری رکھے گی، لیکن اس نے ساتھ ہی یہ واضح بھی کیا ہے کہ سیکیورٹی مسائل حل کرنا پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے۔
گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک منصوبے صرف ترقیاتی پہلو نہیں رکھتے بلکہ یہ چین کے وسیع جغرافیائی اقتصادی مفادات کا حصہ ہیں، اور ان پر ہونے والے حملے دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
چیلنجز کے باوجود تعاون کا عزم
پاکستانی صحافی کے مطابق چین اور پاکستان نے ان مسائل کے باوجود اپنی شراکت داری کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور دفاعی تعلقات مضبوط ہیں، لیکن ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر بلوچستان میں بڑھتی شورش کو قابو پانے کے لیے۔
یہ مضمون جنگ نیوز کی رپورٹ سے ماخوذ ہے، لیکن موضوع کی وسعت اور نزاکت کے پیش نظر مزید حقائق اور تجزیات شامل کیے گئے ہیں۔