مستقبل کا ستارہ ــــ زاکر بلوچ

311

مستقبل کا ستارہ 

تحریر : زاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

نوجوان کسی بھی قوم کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں جو اپنے علم شعور اور محنت سے اپنے قوم کی تقدیر بدلتے ہیں یہ نوجوانوں کی محنت اور لگن ہے کہ دنیا آج گلوبل ولیج میں داخل ہوگئی ہے یہ نوجوانوں کی قربانی ہے کہ دنیا میں غلامی کا خاتمہ ہونے کے قریب ہے یہ نوجوانوں کی طاقت ہے جس نے چین کیوبا گھانا ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ملکوں کو سامراج سے آزادی دلائی، نوجوانوں کی شعور و ہمت نے سامراج کو مجبور کیا کہ وہ ان شعور یافتہ نوجوانوں کو ختم کردیں یا انہیں سزا کے طور پر اغواء کرکے لاپتہ کردے۔

دنیا کی ہر تحریک میں نوجوانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اسی طرح بلوچ قومی تحریک میں نوجوانوں کا ایک اہم کردار رہا ہے جو آزادی جیسی مقدس نعمت کی محبت سے سرشار ہو کر میدان عمل میں کود گئے اور اپنے قربانی سے اپنی سرزمین کا حق ادا کردیا۔
بلوچ قومی تحریک میں بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کردار ادا کرنے والے نوجوان بلوچ قوم کے مستقبل کے ستارے تھے جو شعور اور آگاہی سے لیس تھے اور اسی شعور کی پاداش میں ریاستی عتاب کا شکار ہوئے انہی نوجوانوں میں ایک نوجوان ثناء اللہ بلوچ عرف عزت بلوچ تھے۔
ثنا اللہ بلوچ نے دیگر بلوچ نوجوانوں کی طرح اپنی قومی غلامی کو محسوس کرتے ہوئے بی ایس او آزاد میں 2009 میں شمولیت اختیار کرلی 2010 سے 2012 تک زونل صدر رہے اور 2012 کے کونسل سیشن میں مرکزی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور اس دوران تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری بھی رہے 2015 کے کونسل سیشن میں وہ بلامقابلہ بی ایس او آزاد کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے۔

عزت بلوچ کا شمار ان بلوچ نوجوانوں میں ہوتا ہے جنہیں آزادی سے جنون کی حد تک محبت تھی اور اس کا ذکر ان کی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ایک مرتبہ عزت بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ آج ہمارے سینکڑوں ساتھی پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اذیتیں برداشت کررہے ہیں لیکن اگر پاکستان یہ کہے کہ میں آزادی سے دستبرداری کی شرط میں تمام بلوچ اسیران کو رہا کردونگا لیکن ہم پھر بھی اپنے آزادی کے مطالبے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گے ہمیں اپنے دوست بہت عزیز ہے لیکن آزادی سے کوئی مقدس شے نہیں اسی سوچ کو بنیاد بناکر اس نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور اسی جدوجہد کے جرم میں اپنی سرزمین سے محبت کے جرم میں اور آزادی سے بے پناہ محبت کے جرم میں پاکستانی خفیہ اداروں نے کراچی کے علاقے موسمیات سے 15 نومبر 2017 کو انکے نظریاتی ساتھیوں کے ہمراہ اغواء کرلیا آج 5 ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود عزت اور اسکے ساتھیوں کا کوئی پتہ نہیں۔
کراچی جیسے ایک انٹرنیشنل شہر میں نوجوان طالب علموں کا اغوا ء ہونا اور اس اغواء پر نام نہاد پاکستانی اداروں انسانی حقوق کے اداروں اور خود کو مہذب کہنے والے سوشلسٹوں کی خاموشی ایک ایسا المیہ ہے جس سے مستقبل میں وہ خود بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

عزت بلوچ بلوچ قومی تحریک کے مستقبل کا ستارہ تھا جس میں وہ قابلیت موجود تھی کہ وہ مستقبل میں بلوچ قومی جدوجہد کا اہم رہنما بن سکتا تھا۔
عزت بلوچ کتابوں سے دوستی رکھنے والا انسان تھا بحیثیت بی ایس او آزاد کے جنرل سیکرٹری وہ اپنے کیڈرز کو ہمیشہ کتاب کی رہنمائی لینے کا مشورہ دیتا اور مطالعے کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ ایک پر امن سیاسی جہد کار تھا ہمیشہ مطالعے اور سیاسی بحث و مباحثہ میں مصروف رہتا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کے جانے سے اداروں پر کوئی فرق نہیں پڑتا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن عزت اور انکے ساتھیوں کے اغواء ہونے سے ادارے میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جسے پر کرنے میں ایک عرصہ لگ سکتا ہے لطیف جوہر بلوچ اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ عزت اور ساتھیوں کے اغوا ء ہونے سے ہمارے کتنے کام رک گئے ہیں جس کا اندازہ اسکے ساتھ کام کرنے والے دوست ہی کرسکتے ہیں۔

جس طرح بلوچ اسٹوڈنٹس نے یکجا ہو کر ڈاکٹر سعید بلوچ کی بازیابی میں ایک اہم کردار ادا کیا اسی طرح ان طالب علموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچ سیاسی رہنماوں اور سیاسی طالب علموں کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ کسی ریاستی ادارے کو ہمت نہ ہو کہ وہ یونیورسٹیوں اور درسگاہوں سے ہمارے قومی مستقبل کے ستاروں کو اٹھا کر لاپتہ کردے۔
ہمیں پاکستانی اداروں اور پاکستانی نام نہاد سوشلسٹوں اور پارلیمانی سیاسی پارٹیوں سے کوئی امید نہیں ہمیں اگر کسی سے امید ہے تو وہ بلوچ قومی جہد آجوئی کی تنظیموں اور بلوچ نوجوان طالب علموں سے ہیں کیونکہ انہی نوجوانوں کو کل ملکی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لینا ہے اور یہی نوجوان ہمارا قومی مستقبل ہیں۔