بلوچ یکجہتی کمیٹی
تحریر: علی بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
موجودہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا بڑا صوبہ ہے ۔بلوچ قوم اس صوبہ بلوچستان میں چاروں طرف پھیلی ہے۔مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب تک۔
ایک تو بلوچستان میں آبادی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں ان تک پہچنابہت مشکل ہے ۔کیونکہ راستے دشوار ہیں، سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے ہرآبادی تک پہنچ پانا مشکل ہے۔ان راستوں سے سفرکرنا نہاہت دشوار ہوتاہے دوسری طرف ہم دیکھیں بلوچ قوم سندھ،بنجاپ اور خیبر تک آباد ہے اس وسیع قوم کو یکجا کرنے کیلے ایک بڑے صبر اور برداشت کی ضرورت ہے ۔اس کےلیے بہت بڑی جدوجہد کی ضررورت ہے یہ ایک دن کے جلسے یا پروگرام میں ہونا ممکن نہیں ہے۔اگر ہم بلوچستان میں دیکھيں تو اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی کا تذکرہ آپ کو ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے علاقے ہوتا ہوا ملتاہے ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کاآغاز اس وقت ہوا جب تربت میں ایک رات ریاست کے پالے ہوے غنڈے اندھری رات ایک گھر میں کھس جاتے اور حملہ آوار ہوتے ۔ اچانک گولیوں کی آواز سے شہر گونج اٹھتا یہ گولیاں کسی دہشتگردپر نہیں بلکہ ایک گھر میں گھس کر ایک بے گناہ عورت اور بچی پر چلائی جاتی ہیں ۔ان گولیوں سے بچی کی والدہ ملک ناز تو شہید جاتی ہیں اور اسکی بیٹی برمش زخمی ہو جاتی ہے ۔تب برمش یکجہتی کمیٹی بنی جس نے پورے بلوچستان بلکہ دنیا کو اس غیر انسانی عمل سے آگاہ کرنے کیلے بلوچستان بھر میں بلکہ پاکستان کے دیگر صوبے میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج کیے اور اس مسلے کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اسی بلوچ قوم کے ساتھ ہونے والے ہر مظالم اس پلیٹ فارم پہ اٹھایا جاتا تھا جسکی وجہ سے برمش کمیٹی کا نام ”بلوچ یکجہتی کمیٹی“ رکھا گیا۔
پھر جب 2023 میں اسی تُربَت شہر میں ایک اور غیر انسانی سانحہ ریاست کی جانب سے پیش ہوتا ہے تو اس دن بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک تحریک کی شکل میں اس مسلے کو سامنے لاتی ہے ۔
یہ مسلہ کچھ اس طرح تھا کہ جب تربت میں بالاچ بلوچ کو پہلے تو لاپتہ کیا جاتا ہے اور بعد میں عدالت میں پیش کر کے اس کے ٹرائیل چلائے جاتے ہیں اور اسی دوران ایک من گھڑت واقعہ بیان کر کے اسکی لاش کو کسی ویرانے میں پھینک کر دہشتگردی کا نام دیاجاتا ہے۔
تب بالاچ کے لواحقین نے تربت میں دھرنا شروع کیا۔اور اس دھرنا سے تربت سمیت پورے مکران اور بلوچستان بھر میں ایک نئ تحریک کا آغاز ہوا۔ یہ تحریک صرف بلوچستان تک نہیں رکی ۔یہ سندھ اور پنجاپ کے شہروں تک پہنچ گٸ ہے ۔ڈیرہ غازی خان،تونسہ اور راجن پور جیسے شہروں میں اس تحریک کی حمایت ہونے لگی۔
بالاچ کو جب لواحقین نے کوہ مراد میں دفنایا تو اس تحریک نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تربت سے روانہ ہوکے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ھوۓ کوئٹہ تک پہچ گٸے ۔اور کئی دن کوئٹہ میں دھرنا دیا۔بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ اب یہ دھرنا بلوچستان تک نہیں رکناچاہیے ۔ بلکہ ہم لانگ مارچ کی شکل اختیار کرکے اسلام آباد جاٸینگے۔
اس اعلان کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین نے شامل ہونا شروع کر دیا۔ اس قافلے کو کوئٹہ سے روانہ ہوتے بےشمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے ہی شال سے ہوتے ہوۓ کوہلوں ،بارکھان ،رکنی پہنچے تو سڑکوں کو سرکار نے سے بند کردیا۔لیکن انھوں نے یہ طے کیا کہ جتنی بھی مشکلات آئیں ہمیں اپنی منزل تک پہچناہے ۔کوہ سلیمان کے بلوچوں نے شامل ہو کر بلوچ ہونے کا ثبوت دیا ۔
رکنی میں جب کافلے کو روکاگیا تو کھیتران اور بزدار کے قبلیوں نے اپنی ہمت دکھاکر قافلے کو ڈی جی خان ،اور تونسہ تک پہچایا۔ ان مشکلات کو برداشت کرتے ہوۓ ڈی آٸی خان سے ہوتے ہوۓ جب اسلام آباد میں انٹر ہورہے تھے _تو انہیں انٹری سے روکاگیا لیکن کافی جد وجہد کے بعدجیسے(26 نمبر )اسلام آباد پہنچے تو انہیں دوبارہ روکاگیا ۔اُف! اس رات کی شیلنگ اور واٹر گیلن کا پھینکنا اور پھر گرفتاریاں معصوم بچوں اور بےبس ماٶں کے رونے کی آوازیں عرش تک پہنچ رہی تھیں کافی جدوجہد کے بعد جب قافلہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد تک پہنچ گیا۔
اسی دوران کافی دوستوں کو گرفتار کرکے ایک ہفتے کی ریمانڈ پر رکھا گیا ۔لیکن افسوس کی بات ہےاتنے زیادہ خاندان تین ہزار کلومیٹر کافیصلہ طے کرکے جس امید سے آۓ ہیں ۔ان کو اس شہرِ کوفہ کے عدالتوں نے بے امید کردیا ۔ان لاپتہ افراد کے خاندانوں کو اتنا مجبور کیا کہ یہاں سے چلے جائیں۔ان کوباڑ لگا کر بند کیا گیا اور کھانے پینے کی اشیاء تک پابندی لگائی گٸ کچھ انسان دوست جب ان لاچار اورمجبور ماٶں کےلیے گرم کپڑے اور کمبل لاتے تو انہیں بھی اس کیمپ میں آنے کی اجازت نہیں دیتے ۔یہاں تک کہ مرد حضرات کو اپنے مسجدوں میں نماز پڑھنے سے بھی روکاگیا ہے ۔آخر قافلے کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ ،سمی دین اور دیگر شرکا ء نے یہ فیصلہ کرکے اپنے کیمپ کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم اپنا مدعا بلوچ قومی عدالت میں پیش کریں گے وہی ہمارے درد کو سمجھیں گے۔
جب 23 جنوری 2024 کی صبح کیمپ سے ان تصویروں کو سیمٹ رہے تھے ۔
اُف! اللہ جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو آنسوں رکنے کے نام نہیں لیتے۔جب وہ ماٶں اور بہنوں کی چیخیں یاد آتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتاہے آخر یہ قافلہ انہیں تصویروں کےساتھ اپنے گلزمین بلوچستان کی طرف روانہ ہوا ۔انہوں روانہ ہونے سے پہلے ایک بلوچ قومی عدالت لگانے کا اعلان بھی کیاتھا ۔جب یہ کافلہ بلوچستان کی سرزمین میں واپس پہنچا تو ہزاروں لوگوں نے اس کا استقبال کیا شال کی سڑکیں عوام کے ہجوم سے بھرگٸ تھیں ۔اس طرح محسوس ہورہاتھا جیسے کوئی جنگ جیت کر آگٸ ہو۔ان ماٶں اور بہنوں کی آنسوں اس وقت خشک ہوگٸے جب انہوں نے اپنی قوم کا حوصلہ اور جنون دیکھایہ سلسلہ تو رکنے والا نہیں تھا روزانہ لوگوں کو لاپتہ بھی کیا جارہاتھا ۔اور دوسری طرف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بھی اجتجاج میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔اسی دوران(26جنوری 2024) کو ایک پروگرام رکھا گیاہے ۔اسے پروگرام میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی ہے،گوادر سے لے کر ڈیرہ غازی خان،تونسہ اور راجن پور تک ۔
یہ کاروان اسی طرح چلتاجارہاہے ۔کبھی اجتجاج اور کبھی سیمنار اسی طرح چل رہاہے اور چلتا رٸیگا ۔
۔28جولاٸ کو جب بلوج یکجہتی کی جانب سے گودرمیں راجی مچی کا انقعاد کیاگیا۔اس وقت بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مہم جاری رہا اورپمفلٹ تقسیم کیے جارہے تھے۔اس پروگرام کو قومی تشکیل کا نام دیاگیاہے۔ یہ پروگرام گودر کی تاریخ کا پہلا نوعیت کا تھا اسے پہلے کوٸی سیاسی پارٹی اس نوعیت کا پروگرام نہیں کرسکا۔گوادر سمیت بلوچستان بھر سے قافلے کا آنا شروع ہوگۓ۔ کیونکہ پہلی بار راجی مچی کا اعلان ہواہے ۔اس پروگرام میں ہر شہراور گاٶں سے قافلہ گوادر کی طرف روانہ ھوۓ ۔لوگوں کو کافی مشکلات کا سامناکرناپڑا۔ چیک پوسٹوں پہ لوگوں کو روکھنااور ان پر شیلنگ و فیئرنگ کرنا بےگناہ معصوم شہریوں کو شہید کرنا اور مزید ان قافلوں میں سے لوگوں کو لاپتہ کرنا جیسے بےشمار مشکلات کا سامنا تھا۔
جتنا بھی سرفراز اینڈ کمپنی نے اس پروگرام کو ناکام بنانے کی کوشش کی ان کا یہ خواب ادھورہ رہ گیا ہے اور راجی مچی نے کامیابی سے اپنا پروگرام کردیا۔بلوچ یکجہتی کی جانب سے گوادر میں راجی مچی کا نہایت بہترین عمل تھا۔گودر میں ریاست کی طرف سے باڑلگاناایک دیرینہ خواب ہےجو بلوچ قوم کبھی ھونے نہیں دیگی۔کیونکہ بلوچستان ایک مزاحمت کا مرکز ہے ۔لیکن بلوچستان کے کچھ ایسے علاقےبھی ہیں جو بلوچ قوم کے اس قومی جدوجہد سے محروم ہیں جہاں بلوچ یکجہتی کمیٹی نہیں پہنچ سکی ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماٶں سے گزارش ہے کہ وہ کوہ سیلمان کے علاقوں میں بھی پروگرام رکھے ۔یہاں کے لوگوں کے بھی کافی مساٸل ہیں ۔یہاں کے لوگ ابھی تک سکول، ہسپتال اور روڈ جیسے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں یہاں تک کہ صاف پانی بھی ان کے پاس میسرنہیں ہے۔یہ لوگ کٸ کلومیٹر دور سے پانی بھر کے لاتے ہیں ۔ کوہ سلیمان بارکھان ،کھولوں،راڑہ شم،اندرپڑھ کا دورہ کرکے ان کے حالات زندگی سے بھی واقف ہوجائیں۔ تاکہ اس قومی تحریک کو مزید وسعت کے ساتھ ان علاقوں کے مسائل سے آگاہی حاصل ہو۔
تاکہ قومی مسائل کا معلومات حاصل کرکے بلوچ قوم کو یکجا کیا جاسکے۔ اور دنیاں کو مزید بلوچستان کے کے محرومیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرسکے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں