جب یہ دیس ہمارا ہوگا
تحریر: سلیمان بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
ہر باشعور انسان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ دنیا کی وہ قومیں جنہوں نے اپنے وطن، زبان، نسل، یا قومی شناخت کے لیے جدوجہد کی، بالآخر اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئیں اور اجتماعی مفادات حاصل کیے۔ ظالم کی زندگی کی روشنی اس وقت تک ہے جب تک مظلوم خاموش ہے۔ جیسے ہی مظلوم اپنے حقوق کے دفاع کے لیے کھڑا ہو، ظالم کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے اقتدار کے دن گنے جا چکے ہیں۔ کیونکہ اس وقت مظلوم کا شعور جاگ جاتا ہے، اور شعور کو دنیا کی کوئی طاقت کچل نہیں سکتی۔
یہی حال میرے مادرِ وطن بلوچستان کا ہے۔ 1839 میں جب فرنگی نے بلوچستان کی سرزمین پر قدم رکھا، تو اسی دن سے اسے خیرمقدم کے بجائے بلوچوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا گیا۔ نہ وہ اور نہ اس کے جانشین آج تک بلوچستان میں اپنے قدم جما سکے، اور انشاء اللہ آئندہ بھی نہیں جما سکیں گے۔ وہ آج بھی ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ایک دھکے سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی اور آج بھی ہمارے اپنوں نے ان کے قدموں میں رسیاں ڈال کر انہیں سہارا دیا ہے تاکہ ان کے آقا نہ گر جائیں اور ان کی روٹی پانی بند نہ ہو۔
یہ حقیقت ہے کہ جلد یا بدیر ہمیں ان کا سامنا کرنا ہوگا، اور وہ وقت آئے گا جب ہمارے وطن کے بیٹے، جو حقیقی، نسلی، ثقافتی، اور روایت کے علمبردار ہیں، اپنے وطن کو آزاد کرائیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں میرے دیس میں “فراری” کہا جاتا ہے۔
جب وہ وطن کے پروانے ان سامراجی طاقتوں کو نکالنے میں کامیاب ہوں گے، تو یہ وطن ہمارا ہوگا۔ لوگ بھی ہمارے ہوں گے، زمین ہماری ہوگی، زمانہ ہمارا ہوگا۔ یہ چمن ہمارا ہوگا، یہ آسمان ہمارا ہوگا۔ یہ دریا، گوادر، سیندک، چاغی، اور کَلُو (کلات) سب کچھ ہمارا ہوگا۔ یہ فضائیں آزاد ہوں گی، اور دفاع بھی ہمارا ہوگا۔
پھر ہر مذہب آزاد ہوگا، ہر فرقہ اور مکتبہ فکر آزاد ہوگا۔ زبان آزاد ہوگی، سڑکیں آزاد ہوں گی، یونیورسٹیاں ہماری ہوں گی، سیاست ہماری ہوگی، اور ریاست ہماری ہوگی۔ جب ہماری آنے والی نسل ہماری سڑکوں پر سفر کرے گی، تو وہاں شہیدوں کے نام ہوں گے۔ ان کے مجسمے ہوں گے جن سے وہ پیار کریں گے اور انہیں اپنا آئیڈیل بنائیں گے۔
ہمارے بچے چاند پر جانے کے خواب کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ ہمارے قومی ہیروز کے نام پر تعلیمی ادارے، اسپتال، اور دیگر مراکز قائم ہوں گے۔ شہید غلام محمد چوک، لالا منیر سڑک، واجہ شیر محمد چوک، بانک کریمہ پارک، سنگت ثناء ٹاؤن، ذاکر جان سینٹرل لائبریری، شہید شہزاد دہوار ریسرچ سینٹر، نواب بالاچ ٹینیکل سینٹر، سردار عطااللہ کالج، اور شہید مجید ایئر بیس جیسے نام تاریخ کا حصہ ہوں گے۔
پھر پورے دیس میں ہر شہید کے نام سے ایک ادارہ ہوگا جو ان کی قربانیوں کی یاد کو زندہ رکھے گا۔ ہمارے بچے بے خوف سکول جائیں گے، ہر صبح قومی پرچم کو سلام کریں گے اور قومی ترانے “مہ چُکے بلوچانی مہ گُلڑۓ شیرانی” کو فخر سے گائیں گے۔
پھر ہماری قومی فوج سرحدوں کا دفاع کرے گی، دشمن کی ہر چال کو ناکام بنائے گی، اور مادرِ وطن کو ناپاکوں سے پاک کرے گی۔ کوئی ڈیتھ اسکواڈ نہیں ہوگا، کوئی سردار، میر، ٹکری، یا لگڑبگڑ نہیں ہوگا۔ نہ کوئی زندان میں ہوگا، نہ کوئی لاپتہ ہوگا، نہ جھوٹے مقابلے ہوں گے، اور نہ کسی کو غداری کے سرٹیفکیٹ دیے جائیں گے۔
محبت ہمارا مذہب ہوگا، اور امن ہمارا ایمان۔ ہر بلوچ زادہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے گا، اور یہ زمین صرف اور صرف اس کے لیے ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں