فلسفہ وطن پرستی، عشقِ سرزمین – شاشان بلوچ

189

فلسفہ وطن پرستی، عشقِ سرزمین

تحریر: شاشان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شاشان کی کوچہ سے جنم لینے والا عرب نواز ، جسے تاریخ نے جہانزیب کے نام سے پہچانا۔

شاشان کے کوچہ میں جنم لینے والا وہ نوجوان، جس کی شناخت نہ عمر سے ہوئی، نہ ظاہری وجاہت سے، بلکہ اپنے عزم اور عشق سے ہوئی، ایک علامت بن گیا۔ اس کے کردار کی گہرائی اور اس کے جذبے کی وسعت، کسی داستانوی کردار سے کم نہیں۔ وہ نوجوان، جو بلوچستان کی خاک سے محبت میں مگن، اپنے وجود کو مٹانے کی سرحدوں تک جا پہنچا۔

یہ فلسفہ، کسی مادّی تمنا یا ذاتی خواہش سے بلند، اس دھرتی سے عشق کی داستان سناتا ہے۔ جھاؤ کی وادیوں سے لے کر سورگر کے پہاڑوں تک، رضا جہانگیر کی آواران سے راول جان کی کولواہ تک، اس کا سفر محبت، قربانی اور جہد مسلسل کا عکاس تھا۔ مند ، تربت ، تمپ ، بلیدہ ، پروم اور کیلکور کی دھرتی پر بہائے گئے پسینے اور خون کی گواہی، اس کے عشق کی شدت کو واضح کرتی ہے۔

یہ نوجوان، جس کی مونچھیں اور داڑھی ابھی تک جوانی کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ سکیں تھیں، اپنی زندگی کو یوں سمجھتا تھا جیسے کسی عظیم مشن کا ایک چھوٹا سا پرزہ۔ اس کا فلسفہ یہ تھا کہ انسان اپنی مٹی سے جتنا جڑتا ہے، اتنا ہی اپنے وجود کا مطلب سمجھتا ہے۔

اس کے نزدیک، محبت صرف ایک جذبہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی پہاڑوں اور میدانوں سے محبت کا مطلب یہ تھا کہ ان کی حفاظت کے لیے اپنی آخری گولی اور آخری سانس تک لڑا جائے۔ یہ لڑائی صرف دشمن سے نہیں، بلکہ اپنے اندر کے خوف، شک، اور ناامیدی سے بھی تھی۔

فلسفیانہ طور پر، وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ انسان کی عظمت اس کے عمل میں ہے، نہ کہ اس کے الفاظ یا خوابوں میں۔ عمل کا مطلب تھا کہ جو اصول دل میں جگہ پا لیں، ان پر عمل کرنے میں کسی قیمت کی پروا نہ کی جائے۔ یہ اصول بلوچستان کے عشق کے تھے، جو کسی بھی مفاد سے بالا تر تھے۔

شاشان کی کوچہ سے جنم لینے والا نوجوان بلوچستان کے عشق میں فنا ہو گیا۔ یہ وہ سفر تھا جسے دنیا کے عظیم گوریلا جنگجوؤں کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، جنہوں نے اپنی سرزمین اور مقصد کے لیے قربانی دی۔ جہانزیب کا سفر شاشان کی چٹانوں سے شروع ہوا اور سیاجی کی بُرز و بلندیوں پر جا پہنچا، جہاں ہر قدم آزمائش اور ہر لمحہ امتحان تھا۔

گوریلا جنگ کی دنیا میں ایسے بے شمار نام ہیں جنہوں نے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کی، چے گویرا (کیوبا)، جس نے لاطینی امریکہ کے عوام کو آزادی کا خواب دکھایا، اور ہورہی سینڈینو (نکاراگوا)، جو سامراجی استحصال کے خلاف ڈٹا رہا، ان کی جدوجہد کا عکس جہانزیب کی جنگ میں صاف دکھائی دیتا ہے۔

جہانزیب کا سفر انقلابی فکر کا استعارہ تھا، جیسے ہو چی منہہ (ویتنام) نے اپنی سرزمین کو فرانسیسی استعمار اور امریکی تسلط سے آزاد کرایا، یا جیسے احمد بن بیلا (الجزائر) نے اپنی قوم کو نوآبادیاتی پنجوں سے نکالا۔ سیاجی کی بلند و بالا چٹانوں پر جہانزیب کی گونج ان آزادی کے متوالوں کے نعروں کی یاد دلاتی ہے جو دنیا بھر میں مظلوموں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔

یہ سفر محض بلوچستان کی پہاڑیوں تک محدود نہیں تھا؛ یہ ایک نظریاتی جدوجہد تھی، جیسے تھامس سنگکارا (برکینا فاسو) نے اپنی دھرتی کے لیے کی، یا جیسے عباس آفندی (ایران) نے مقامی خودمختاری کے لیے قربانیاں دیں۔ جہانزیب نے اپنی ہر سانس اس مقصد کے لیے وقف کی، جو ہر گوریلا جنگجو کی اصل میراث ہے۔

شاشان کی سخت دھرتی سے نکل کر جہانزیب نے چیانگ کائی شیک کے مخالف ماؤزے تنگ (چین) کی طرح اپنی جنگ لڑی، جس کی بنیاد عوامی حمایت پر تھی۔ وہ رافائل ٹروخیو (ڈومینیکن ریپبلک) جیسے جابروں کے خلاف کھڑا ہونے والے جنگجوؤں کے فلسفے کا وارث تھا، جو قربانی کو بقا کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

جہانزیب کی جدوجہد کا ہر لمحہ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ گوریلا جنگ، چاہے وہ عبدالمالک بلوچ (بلوچستان) کی صورت ہو یا جنوبی افریقہ کے نلسن منڈیلا کی، صرف طاقتوروں کے خلاف مزاحمت نہیں، بلکہ ایک خواب کو زندہ رکھنے کا عمل ہے۔

جہانزیب کا سفر، جو شاشان کی سخت چٹانوں سے شروع ہوکر سیاجی کی بلندیوں پر آں پہنچا، صرف ایک جنگ نہیں بلکہ ایک فلسفہ تھا۔ یہ فلسفہ آزادی، خودمختاری، اور مظلوموں کے حقوق کی بازیابی کا تھا، جو تاریخ کے ہر گوریلا جنگجو کی میراث ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں