نوید حمید؛ ایک غیر معمولی انسان
تحریر: نور پلیزئی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گلی، بلیدہ سے تعلق رکھنے والے ایک سادہ مگر غیر معمولی آدمی نوید حمید نے ایک ایسی زندگی گزاری جس کا بہت سے لوگ صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں — ایک ایسی زندگی جو بے لوثی، اپنے لوگوں کے لیے محبت، اور انصاف کے لیے اٹل عزم کے لیے وقف تھی۔ اگرچہ اسے کبھی بھی رسمی تعلیم کی سعادت حاصل نہیں ہوئی، نوید کی دانشمندی اس کے عمر سے کہیں زیادہ تھی۔ صحیح اور غلط کے بارے میں اس کی سمجھ فطری تھی، اور یہی وضاحت اس کی زندگی بھر رہنمائی کرتی رہی۔
چھوٹی عمر میں، نوید اپنے اور اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑ کر دبئی چلا گیا۔ اس نے انتھک محنت کی، ایک بہتر زندگی بنانے کی خواہش سے کام کیا۔ لیکن قسمت اپنا کھیل کھیلتا ہے۔ اس کی ماں کی موت نے نوید کی زندگی میں ایک اہم موڑ لایا۔ وہ کم عمری میں ہی یتیم ہو گیا اور اس غم نے اسے بدل دیا۔ وہ دبئی چھوڑ کر اپنے مادر وطن بلوچستان واپس آئے جہاں انہوں نے اپنے لوگوں کے دکھوں کا مشاہدہ کیا۔
نوید اپنے لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر خاموش کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔۔ اس کی گہری ہمدردی نے اسے جہاں بھی ممکن تھا مدد کرنے پر مجبور کیا، چاہے وہ طبی امداد فراہم کرنا ہو،کسی بچے کو تعلیم میں مدد کرنا ہو، یا مظلوموں کو مدد کا ہاتھ پیش کرنا۔ اس کی بے لوثی نے اسے ایک ایسی دنیا میں الگ کر دیا جہاں خود غرضی اکثر غالب رہتی ہے۔ اس سے ملنے والے اس کی سخاوت سے حیران رہ گئے — ایک ایسی دنیا میں جہاں لوگ ایک دوسرے کی کم تر پرواہ کرتے نظر آتے ہیں وہاں کوئی اپنا اتنا کچھ کیسے دے سکتا ہے؟ بچے ہوں، بزرگ ہوں، عورتیں ہوں یا مرد، سب نے نوید کی تعریف کی۔ وہ کھلے دل کا مالک تھا۔
اس کے دل کی تکلیف ذاتی نقصانات سے بڑھ گئی۔ اس کے لوگوں کی حالت زار اسے کھا گئی۔ وہ راتوں کو جاگ کر کسی غریب خاندان کے اگلے کھانے، بچے کی تعلیم یا کسی مظلوم شخص کی انصاف کی لڑائی کے بارے میں سوچتا رہتا۔ بلوچستان میں ریاستی اداروں کی طرف سے جبری گمشدگیوں نے ان پر بہت زیادہ وزن ڈالا۔ اس کا اپنا خاندان بھی اس ظلم سے نہیں بچا۔ اس کے کزن مسلم عارف کو زبردستی غائب کر دیا گیا۔
نوید کا درد ایک مشن میں بدل گیا۔ انہوں نے نہ صرف مسلم عارف بلکہ بلوچستان کے تمام لاپتہ اور مظلوموں کے لیے آواز بلند کی۔ وہ انصاف کے لیے ایک انتھک وکیل بن گئے، احتجاج، دھرنوں اور ریلیوں میں اپنے لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ چلچلاتی گرمی ہو یا جمی ہوئی سردی، بھوک ہو یا تھکن، نوید وہاں موجود تھا، اپنا وقت، توانائی اور دل اس مقصد کے لیے پیش کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے لوگوں کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے اسلام آباد کا بھی سفر کیا۔
اپنے آخری دنوں میں، نوید ایک اور کزن عزیر کی رہائی کے لیے لڑ رہا تھا، جسے بھی زبردستی لاپتہ کر دیا گیا تھا۔ اسے بار بار تنبیہ کی گئی کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں، اپنی سرگرمی ترک کر دیں، لیکن نوید نے خاموش رہنے سے انکار کر دیا۔ اسے اپنی ہمت اور سرکشی کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔
موت سے ایک دن پہلے نوید کو فون آیا۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وہ ان لوگوں سے ملنے چلا گیا جنہوں نے اسے بلایا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ایک ناقابل بیان ظلم تھا۔ نوید کو ریاستی ایجنسیوں اور ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایک اسٹیج مقابلے میں ماردیا گیا۔ اس کی مسخ شدہ لاش اس کی کار میں لاوارث پائی گئی – ایک ایسا نظارہ جس نے اس کی برادری میں صدمے کی لہر بھیج دی۔ایک ایسے شخص کے لیے ایک المناک اور دردناک انجام جو صرف اپنے لوگوں کے لیے انصاف اور امن چاہتا تھا۔
نوید حمید اس قسمت کے مستحق نہیں تھے۔ ان کی زندگی اپنے لوگوں کے لیے رحمدلی، دیانتداری اور اٹل لگن کا ثبوت تھی۔ اس کا نقصان ان لوگوں کے دلوں پر ایک گہرا زخم ہے جو اسے جانتے تھے ۔
نوید نے اپنی قوم کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ان کی کہانی، اگرچہ افسوسناک ہے، لیکن بلوچ عوام کے لیے انصاف اور آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کی روشنی ہے۔ نوید کی قربانی کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اب یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم اس کے لیے اپنی آواز بلند کریں، اس کے لیے انصاف مانگیں، اور مظلوموں کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں