بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کوئٹہ میں عالمی انسانی حقوق کے دن کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ
آپ بلوچ کے سمندر کو دیکھتے ہیں تو آپ کو بلین ڈالر کا سی پیک نظر آتا ہے بلوچ جب اس سمندر کو دیکھتا ہے اسے شہیدوں کا لہو نظر آتا ہے، بلوچستان میں سخت حقیقت کا مقابلہ کرنا ہوگا یہ دن ایک تاریخ سے زیادہ ہے۔ یہ نسل در نسل سے قطع نظر تمام لوگوں کے وقار، آزادی اور حقوق کو برقرار رکھنے کی اہم دن ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دن کو ستر سال قبل اقوام متحدہ نے بطور انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا تھا جس میں زندگی، آزادی، سلامتی اور اذیت، امتیازی سلوک اور جبری حراست سے آزادی کے حق کی تصدیق کی گئی تھی۔ یہ حقوق آفاقی ہیں پھر بھی یہ تمام بلوچستان میں تو سہانے خواب ہی بن کر رہ گئے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے اندر بلوچ قوم کئی دہائیوں سے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور جبری نظام کا شکار ہے۔ گمشدہ افراد کے اہل خانہ خاموشی سے سوگ مناتے ہوئے لاپتہ پیاروں کی تلاش کرتے ہیں جبکہ ذمہ دار بے رخی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محض تعلیم، صحت اور وسائل کا مطالبہ کرنے والے نوجوان اور خواتین غدار قرار دیتے ہیں۔ صحافیوں کو خاموش کیا جاتا ہے اور کارکنوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ ہمارے سرزمین پر موجود قدرتی دولت نکال لی جاتی ہے جبکہ ہمارے لوگ غریبی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سکول، ہسپتال اور دیہاتوں میں بنیادی وسائل کا فقدان ہے اور ترقی کے حق سے انکار کیا جاتا ہے ۔
ان ناانصافیوں کے باوجود بلوچ عوام کی اپنی حقوق کے لئیے کی جانے والی جد و جہد غیر متزلزل ہے۔ ہمارے لوگوں کی چیخیں انصاف، مساوات اور عزت سے جینے کا حق مانگتی ہیں – ہمارے پیاروں کی چیخیں دھرتی کے پہاڑوں اور صحراؤں میں گونجتی ہیں۔ ان چیخوں کو سنا نہیں جاسکتاہے ۔
انہوں نے کہا کہ صرف آج کا ہی دن انسانی حقوق کا خلاصہ نہیں ہے، اس دن کو ہر روز برقرار رکھا جانا چاہئے۔ بلوچستان امن، انصاف اور وقار کا مستحق ہے جب تک ظلم ہے ہم مزاحمت کا علم بلند کریں گے جب تک خاموشی رہے گی ہم ہی بولیں گے جب تک امید ہے بہتر کل کے لیے کوشاں رہیں گے ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہاکہ 28 جولائی آپ کے کلینڈر میں ایک تاریخ ہے ہمارے یادداشتوں میں وہ قومی مزاحمت کا دن ہے ۔ جو تلار ایک چیک پوسٹ تھا آج وہ قومی مزاحمت کی جگہ ہے۔