بلوچستان یونیورسٹی کی طالبہ ہانی مشی بلوچ کی کشیدہ کاری کے ذریعے لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی منفرد کوشش
فائن آرٹس کی طالبہ ہانی بلوچ نے اپنی کشیدہ کاری کے ذریعے بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی منفرد کوشش کی ہے کوئٹہ میں منعقدہ ایک نمائش کے دوران ہانی بلوچ نے اپنے آرٹ کے ذریعے ان خاندانوں کے دکھ اور مزاحمت کی عکاسی کی، جن کے پیارے سالوں سے لاپتہ ہیں۔
ہانی بلوچ نے بلوچ ثقافتی کشیدہ کاری کے ذریعے لاپتہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے جذبات کو پیش کیا ان کے کشیدہ کاری کے ڈیزائنز میں مظاہروں کی جھلک دکھائی گئی، جہاں لاپتہ افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی تصاویر تھامے انصاف کی اپیل کر رہے ہیں۔
ہانی بلوچ کا کہنا تھا یہ کشیدہ کاری لاپتہ افراد کے مسئلے کو ثقافتی رنگ میں پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس آرٹ کا مقصد بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنا تھا ہمارے معاشرے میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں، اور ان کے خاندان سالوں سے ان کے انتظار میں یا مزاحمت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں میں نے ان جذبات کو اپنے فن کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔”
ہانی بلوچ نے انکشاف کیا کہ کشیدہ کاری پر کام کرتے ہوئے اور اسے نمائش میں پیش کرنے کے دوران انہیں انتظامیہ کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کے آرٹ کو میڈیا کے سامنے پیش کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں۔
نمائش کے دوران ان کے کشیدہ کاری کو طلبہ اور دیگر شرکاء نے بے حد سراہا ان کے آرٹ ورک میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل ہونے والے اور لاپتہ افراد کے چہرے دکھائے گئے تھے، جنہوں نے حاضرین کو لاپتہ افراد کے مسئلے کی سنگینی پر غور کرنے پر مجبور کیا۔
ہانی بلوچ نے کہا اس آرٹ کا مقصد ہمارے معاشرے کی حقیقت کو بیان کرنا تھا، جہاں ہر گھر سے ایک نوجوان لاپتہ ہے۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مستقبل میں بھی اپنے آرٹ کے ذریعے ان اہم مسائل کو اجاگر کرتی رہیں گی جن پر معاشرہ اور ریاست خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔