اسرائیلی فوج نے پیر کو کہا ہے کہ ایک امریکی نژاد اسرائیلی فوجی جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے دوران یرغمال بنایا گیا تھا، درحقیقت حملوں کے دوران مارا گیا تھا اور ان کی لاش اس وقت سے غزہ میں تھی۔ صدر بائیڈن اور خاتون اول نے غمزدہ خاندان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
عمر نیوٹرا کی پیدائش اور پرورش امریکہ میں ہوئی اور انہوں نے 7 اکتوبر کے اس حملے کے دوران ٹینک کمانڈر کے طور پر اسرائیل کی فوج میں خدمات انجام دیں، جس میں حماس کے زیر قیادت جنگجوؤں نے اسرائیلی علاقے پر حملہ کر کے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک اور 250 سے زیادہ کو یرغمال بنالیا تھا۔
غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی فوجی مہم میں 44,400 سے زائد فلسطینی ہلاک اور زیادہ تر آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔ انکلیو کا وسیع حصہ کھنڈر بن گیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی نیوٹرا کو سراہتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور ‘قیام امن کے لیے ان کی لگن کو اجاگر کیا۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں صدر بائیڈن نےبتایا کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ پہلے عمر کے والدین سے وائٹ ہاؤس میں ان کی ملاقات ہوئی تھی جب انھوں نے اپنے بیٹے کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا کی تھی۔
“وہ درد جس سے کسی بھی والدین کو دو چار نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ عمر کے دادا دادی کس طرح ہولوکاسٹ سے بچ گئے تھے اور کس طرح ان کے خاندان کی طاقت اور بحال ہونے کی اہلیت نسلوں سے چلتی آرہی ہے۔” صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا ہے۔
اسرائیلی رہنماؤں بشمول وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور صدر اسحاق ہرزوگ نے نیوٹرا کے خاندان سے تعزیت کی ہے اور غزہ سے دیگر باقی یرغمالوں کے ساتھ ان کی لاش واپس لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ غزہ میں اب بھی 101 غیر ملکی اور اسرائیلی یرغمالیوں میں سے نصف زندہ ہیں۔
بائیڈن نے، جو 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری تک صدارت کے عہدے پر ہیں، بیان میں مزید کہا کہ وہ حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے امریکی شہریوں کی رہائی کے لیے ‘کام کرنا بند نہیں کریں گے’۔
انہوں نے کہا، “ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اور میں آپ کے پیاروں کو گھر واپس لانے کے کام سے دستبردار نہیں ہونگا۔”
ایک اور امریکی اسرائیلی یرغمال کی ویڈیو
اس سے قبل حماس نے ایک اسرائیلی امریکی یرغمال کی ویڈیو جاری کی تھی جس میں وہ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی بازیابی کے لیے اپیل کر رہے ہیں۔
ہفتے کو جاری کی گئی ویڈیو پر ردِ عمل میں یرغمال ایڈن الیگزینڈر کی والدہ نے کہا ہے کہ ساڑھے تین منٹ کی ویڈیو میں ان کا 20 سالہ بیٹا بہت نحیف نظر آرہا ہے اور کسی اندھیرے مقام پر دیوار کے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔
انہوں نے اپنی شناخت بتائی ہے اور اس کے بعد اپنی فیملی، اسرائیلی وزیرِ اعظم اور ٹرمپ کو مخاطب کیا ہے۔
تل ابیب میں ہونے والی ایک ریلی میں شریک یرغمال کی والدہ یائیل الیگزینڈر نے کہا ہے کہ ویڈیو سے انہیں امید ملی ہے۔ لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایڈن اور دیگر یرغمال کن دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ہم سے مدد کی التجا کر رہے ہیں۔
انہوں نے اسرائیلی قیادت سے یرغمالوں کی رہائی کے لیے غزہ میں جنگ بندی اور حماس سے معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
نیتن یاہو نے ایک بیان میں یرغمال کی ویڈیو کو نفسیاتی جنگ کا سفاکانہ حربہ قرار دیا ہے اور الیگزینڈر کے اہل خانہ سے فون پر بات کرکے یقینی دہانی کرائی ہے کہ یرغمالوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔
الیگزینڈر ایڈن اس وقت ایک فوجی تھے اور ان افراد میں شامل ہیں جنھیں سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجو جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔