بلوچستان میں لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ جاری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شدت اختیار کر گئیں۔ پانک
بلوچستان میں مسخ شدہ اور نامعلوم لاشوں کی برآمدگی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین واقعے میں آواران کے علاقے بزداد بربرکی ندی کے قریب سے دو افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں، جنھیں گولی مار کر قتل کیا گیا۔
لیویز حکام نے لاشوں کو ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتال منتقل کر دیا، تاہم ان کی شناخت ممکن نہیں ہو سکی۔
بلوچ نیشنل مومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کے مطابق، آواران سے آج برآمد شدہ لاشیں فقیر جان اور عیسیٰ کی ہیں، جنہیں جعلی مقابلے میں قتل کئے جانے کا امکان ہے۔
پانک کے مطابق فقیر جان کو 26 ستمبر 2024 کو ان کے گھر پر چھاپے کے دوران حراست میں لیا گیا تھا، جبکہ عیسیٰ 17 فروری 2023 سے لاپتہ تھے۔ دونوں افراد کی جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
پانک نے کہا کہ یہ واقعات بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی سلسلہ وار کہانی کو ظاہر کرتے ہیں۔ تنظیم نے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ ان مظالم کو روکا جا سکے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ نومبر میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کئی لاشیں برآمد ہوئیں، جن میں تربت سے ایک خاتون کی لاش اور قلات سے تین بھائیوں کی لاشیں شامل ہیں۔
پانک سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں ان بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیے جائیں اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
دوسری جانب بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ لاشوں کی برآمدگی کا یہ سلسلہ نہ صرف عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے بلکہ بلوچ عوام کے سماجی اور سیاسی حقوق کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، اکثر برآمد ہونے والی لاشیں ان افراد کی ہوتی ہیں جو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں لاپتہ ہوئے تھے۔
بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی سطح پر توجہ دلانے کے باوجود متاثرہ خاندان انصاف کے منتظر ہیں۔ تنظیموں نے زور دیا ہے کہ اس بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے تاکہ مقامی آبادی کے تحفظ اور وقار کو یقینی بنایا جا سکے۔