میں مطالعہ کا پابند کیوں ہوں؟ – روھان بلوچ

111

میں مطالعہ کا پابند کیوں ہوں؟

تحریر: روھان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

علم و شعور کی افادیت کا تذکرہ پالو فرائرے کے قول سے کرتے ہیں۔ پالو فرائرے اپنی کتاب “تعلیم اور مظلوم عوام” میں لکھتے ہیں “انسان تعلیم کے بغیر انسانی خصوصیات سے محروم ہیں”۔ مطلب تعلیم کے بغیر انسانیت ہی نامکمل ہے۔ انسان کا وحشت سے تہذیب تک کا سفر علم و دانش کا مرہون منت ہے۔ وحشت سے تہذیب تک سفر نے انسان کو اشرف المخلوخات کا درجہ عطاء کیا، مطلب انسان کائنات کے دیگر کروڑوں مخلوقات سے بالاتر ہے جس نے فکری، علمی و شعوری سفر میں تبدیلی کی فطری عمل کو اپنے حق میں بدل دیا اور فطرت کے تابع ہونے کی بجائے فطرت کو اپنے تابع بنانے کی جدوجہد کی۔ (1)

مطالعہ کے عمل سے بے بہرہ، علم و شعور سے محروم لوگوں کا مثال بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی مانند ہے جو صرف ایک چرواہے کی تابع ہوتے ہیں اور آج بھی جو لوگ علم و شعور سے محروم ہیں یا محروم رکھے گئے ہیں اور اپنی طرز زندگی کیلئے خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ میر وزیر، سردار و مُلا کے ہی زیرِ عتاب رہتے ہیں اور اسی ریوڑ کی مانند جنہیں جس طرف لے جایا جائے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے دنیا میں عظیم کام سیکھنا اور سکھانا ہے کسی کو اتنا سکھاو کہ وہ ان زنجیروں سے نکل کر اپنے طرز زندگی کا فیصلہ خود کر سکے۔
سترویں صدی میں مطالعہ اور علم نے طاقت کے روایتی تعریف بھی بدل دیا اور جو علمی میدان میں آگے بڑھتے گئے وہی طاقتور بنتے گئے جس کی مثال آج کی سپرپاور امریکہ ہے۔ ان کا علمی اور معلوماتی نظام اتنا موثر ہے کہ انہوں یورپ کے سانچے سے باہر سب کو قائل کیا ہے کہ وہ جمہوری اور مہذب ہیں جبکہ دنیا کے دیگر اقوام غیر جمہوری اور غیر مہذہب ہیں۔ اس تاثر کی بنیاد ان کا مضبوط علمی نظام ہے جسے توڑنے کیلئے دیگر قوموں کو صدیاں لگ سکتی ہے۔ اسی مضبوط علمی نظام کی بدولت آج پوری دنیا پر امریکہ کی بطور سپر پاور حکمرانی ہے۔ بیشک چائنہ آج ملٹری و معاشی میدان میں امریکہ کے مدمقابل کھڑی ہوسکے مگر علمی میدان میں چائنہ کو اس لیول تک پہنچنے میں شاید نصف صدی لگ جائے۔ آج دنیا کے 75% سے زائد ممالک کا نظامِ تعلیم امریکہ کا متعارف کردہ (West-oriented) ہے دوسری جانب چائنہ کے حروف تہجی بھی دیگر اقوام کیلئے ابھی تک ناقابل فہم ہیں۔ اسی مضبوط علمی نظام کی بدولت دیگر اقوام کے نظام تعلیم سے لیکر خوراک و لباس تک مغرب کا غلبہ نظر آتا ہے۔ (2)

فلسطین اور اسرائیل کی مثال لیجئے کہ ایک اسرائیل کے سامنے 20 عرب ریاستیں سرنڈر کئے ہوئے ہیں بیشک عرب ملٹری اعداد و شمار میں اسرائیل سے زیادہ ہیں مگر علمی میدان اور جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات میں اسرائیل سے بہت پیچھے ہیں۔ اسرائیل کے جدید اور مضبوط ٹیکنالوجی اور ایجادات کے پیچھے اس کے مضبوط علمی نظام اور مضبوط خیالات ہیں۔ ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کیمطابق ایک اسرائیلی شہری سال میں اوسطاً 40 کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے جبکہ ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے بھی کم پڑھتا ہے۔ (3)

ایک غلام سماج اور جنگی خطے میں علمی اور مطالعاتی عمل سے دوری اپنے غلامی کے زنجیروں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ جیسے لینن انقلابی تحریک میں ادب و فن (Literature & Art) کے حیثیت کے بارے میں لکھتا ہے کہ “ادب وفن انقلابی نصب العین کا ایک لازمی جُز ہے۔ لٹریچر انقلابی مشین میں ایسے گراریوں اور پیچوں کی حیثیت رکھتا ہے جن کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ اگر ہمارے پاس وسیع ترین اور عام مفہوم میں ادب و فن نہ ہو تو ہم انقلابی تحریک جاری نہیں رکھ سکتے، اور فتح حاصل نہیں کرسکتے”۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ وسیع لٹریچر کی تخلیق وسیع مطالعہ سے ہی ممکن ہے۔ یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ میدانِ جنگ میں ہمارا سامنا ایک بڑی قوت سے ہے، انقلاب کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے ہیں آیا اس انقلابی عمل میں ہمارا مطالعہ کا رجحان اور اور علمی تخلیقات مطمئن کُن ہیں؟ (4)

1920 میں بلوچ تحریک کو ایک مضبوط اداراتی شکل میں تبدیلی بھی پڑھے لکھے علمی و فکری شعور سے سرشار کرداروں کی وجہ سے ممکن ہوئی جو مطالعہ اور کتب بینی کا شوقین تھے۔ ڈاکٹر سلیم کُرد اپنی کتاب ‘یوسف عزیز مگسی اور بلوچستان ریفارمز موومنٹ’ میں لکھتے ہیں “جب یوسف عزیز مگسی کو جیل میں تین مہینے تک کسی قسم کے اخبار، رسالہ جات یا مطالعہ کیلئے دوسری کتاب نہیں دی گئی تو یہ یوسف عزیز مگسی کیلئے سب سے بڑی روحانی تکلیف تھی”۔ یاد رہے انہی تاریخ ساز کرداروں میں ایک کردار عبدالعزیز کُرد تھے جس نے رسمی تعلیم پانچویں جماعت تک پڑھا تھا مگر رسمی تعلیم کے بغیر بھی ان کا ذوقِ مطالعہ کمال کا تھا اور یہی ذوقِ مطالعہ اور کُتب بینی نے انہیں اس مقام پر پہنچایا۔ کہتے ہیں ایک دفعہ کانگریس کے ایک لیڈر کی عبدالعزیز کُرد سے ملاقات ہوئی تو اس نے عبدالعزیز کُرد کے بارے میں پوچھا کہ کس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ جب پتہ چلا کہ محترم کی پڑھائی صرف پانچویں جماعت تک ہے تو وہ ششدر رہ گئے کہ کیسے رسمی تعلیم کے بغیر بھی کُرد صاحب علمی و فکری گہرائیوں تک پہنچے ہیں۔ (5)

عبدالعزیز کُرد کے تذکرے سے آئرلینڈ کا ایک باشندہ جارج برنارڈ شاء یاد آیا جس نے کُرد کی طرح صرف پانچ سال سکول کی پرائمری تعلیم حاصل کی تھی۔ مگر رسمی تعلیم نہ ہونے کے باوجود اپنے دور کا عظیم ترین ادیب تسلیم کیا گیا یعنی اس نے ادب میں نوبل انعام حاصل کیا۔ ڈیل کارنیگی لکھتے ہیں کہ مطالعہ و کتب بینی سے پہلے جارج برنارڈ شاء اتنے شرمیلا تھے کہ وہ اپنے دوستوں کو ملنے سے گھبراتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس نے شیکسپئر، الف لیلی اور بائبل کا مطالعہ کیا، بائرن، ڈکنز، ڈوما اور شیلے بھی پڑھنے لگے۔ عمر کے اٹھارویں برس میں اس نے ٹائن وال، سٹورٹ مل، اور ہربرٹ سپنسر کو بھی پڑھا۔ ایک طویل عرصے کے مطالعے کے بعد اس نے لکھنا شروع کیا اور نو سال تک مسلسل لکھتے رہے اور اس پانچ سال کےعرصے میں پانچ طویل ناول لکھے۔ کسی کے تجویز پر اس نے کارل مارکس کی کتاب “سرمایہ” کا بھی مطالعہ کیا۔ اس بارے میں وہ خود کہتا ہے کہ سرمایہ کا مطالعہ میری زندگی میں انقلاب سے کم نہ تھا کہ جس نے میری آنکھیں روشن کردیں، ایک تازہ نظریہ عطا کیا، مجھے اپنی زندگی کا کوئی مقصد دینے لگا۔ یہی شرمیلا ایک دن اپنے وقت کا نوبل انعام یافتہ اور عظیم مقرر بن گیا۔ (6)

جنگی خطے میں مطالعہ اور علمی جانکاری کے اہمیت و ضرورت کے سلسلے میں ایک اور کہانی یاد آئی۔ جب ہم یونیورسٹی میں تھے تو وہاں بلوچ طلباء کا ہفتہ وار تربیتی سرکل ہوا کرتا تھا جس میں مختلف موضوعات خاص کر مابعد نوآبادیاتی (Post-colonial) لٹریچر پر بحث ہوتی تھی۔ میرا ایک دوست تھا جو شایان شان گھرانے سے تھا، اس کا والد سرکار کا پروٹوکول یافتہ اعلیٰ عہدا دار تھا۔ وہ نہ صرف ہمارے تربیتی سرکل کو نظرانداز کرتا تھا بلکہ نا پسند بھی کرتا تھا۔ اس کا یہی کہنا تھا کہ جی میں ایک خوشحال گھرانے سے ہوں مجھے جنگ سے کیا لینا دینا۔ جنگی ماحول میں ہوتے ہوئے کوئی جتنا بھی جنگ سے کنارہ کش رہے مگر جنگ اس سے کنارہ کش نہیں ہوتا بلکہ ہر کوئی کہیں نہ کہیں لپیٹ میں آجاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ٹھیک دو سال بعد اس کا اعلیٰ پروٹوکول یافتہ والد کا قتل ہوا اور یہی بیٹا زاروقطار روتا، کبھی اِس کے پاس کبھی اُس کے پاس کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا، آخر ماجرہ کیا ہے، میں اب کیا کروں۔ یہاں کہانی دہرانے کا مقصد یہی تھا کہ اگر وہ پاک اسٹڈی سے نکل مزاحمتی لٹریچر، ظالم و مظلوم کا رشتہ، نوآبادکاروں کی داستانوں کا مطالعہ کرتا تو آج باآسانی سمجھ سکتا کہ ماجرہ کیا ہے۔

میں اس لئے مطالعے کا پابند ہوں کہ نوآبادیاتی نظام یعنی قابض اور مقبوض کے درمیان رشتے کو سمجھ سکوں۔ ایک نو آبادیاتی ڈھانچے میں عموماً مسائل کے ظاہری آثار کچھ اور دکھائے جاتے ہیں مگر درحقیقت ہر مسلئے کا جڑ اور بنیاد نوآبادیاتی ڈھانچے سے جڑا ہوتا ہے مگر ظاہری طور پر اسے ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا اس کا قبضہ گیریت سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسے ہمارے ہاں بیورکریسی کا ادارہ ہے جسے ایسے پیش کیا گیا ہے کہ ہمارے نوجوان بڑی تعداد میں اسے سمجھنے سے قاصر ہیں جیسے وہ بیک وقت ایک طرف ایک بیورکریٹ کی بھی حمایت کرتے ہیں اور دوسری جانب ایک بلوچ جنگی سپاہی کے عمل کو بھی سرہاتے ہیں جو بالکل دو متضاد عمل ہیں ایک کا تعلق ظالم اور دوسرے کا تعلق مظلوم سے ہیں، ایک کا رشتہ قابض اور دوسرا مقبوض سے ہیں۔ در اصل یہ مطالعہ سے دوری کا نتیجہ ہی ہے کہ ہمارے نوجوان نوآبادیاتی نظام کو سمجھنے سے غافل ہیں اور بیک وقت دونوں کے حمایت کرتے ہیں۔ یہ جنگی حالات اور لٹریچر کے مطالعے سے دوری اور لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ ایک نوجوان ایک طرف ایک فدائی کے عکس کو اسٹیٹس پر لگا کر بڑے شان سے حمایت کرتا ہے جبکہ دوسری جانب یہی نوجوان کسی کو بیوروکریسی کے امتحان پاس کرنے پر بھی اسٹیٹس لگا کر مبارک باد بھی دیتا ہے۔ دراصل وہ سمجھنے سے محروم ہیں کہ یہ دو متضاد عمل ہیں اور میں بیک وقت دونوں کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔

کتابوں کی کردار اور اہمیت پر جواہر لال نہرو اپنی کتاب “تاریخ عالم پر ایک نظر” میں لکھتے ہیں “چنگیز و ہلاکو خان نے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا میں کہتا ہوں اتنا مسلئہ نہیں لیکن جب انہوں نے عراق میں ایک اعلی لائبریری کو جلا دیا تو مجھے بہت دکھ ہوا اور میں اس پر انہیں معاف نہیں کر سکتا”۔ (7)

دنیا کے کسی بھی بڑے کارنامے یا تخلیق کے پیچھے صبر آزما مطالعہ، غور و فکر اور گہری علم کارفرما ہوتا ہے جیسے خاتون سائنسدان مادام کیوری جو کینسر کے علاج کے عنصر “ریڈیم” کے موجد ہیں لکھتے ہیں کہ وہ اپنے مطالعے میں اس قدر محو ہوجاتے کہ دوست بنانے کیلئے اس کے پاس وقت ہی نہ ہوتا وہ ہر اس پل کو بیکار تصور کرتی جو مطالعہ کے بغیر گزرجاتا۔ (8)

یاد رہے کہ ہم بھی ایک نئی تخلیق کے عمل میں مصروف ہیں۔ تخلیق، ایک ریاست کی تشکیل نو، ایک نئے نظام کی تخلیق۔ اکیسویں صدی میں ایک ریاست کی تشکیل نو کیلئے مطالعہ اور علمی جانکاری اولین شرائط ہیں۔ جیسے کوئی سائنسدان کسی ایٹم/عنصر کے تخلیق کیلئے اپنی ذاتی زندگی بھول جاتا ہے اور اسی تخلیق کا ہوکر رہ جاتا ہے ایسے ہی ایک ریاست کی تشکیل نو کا تقاضہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ اس جدید دور میں اگر کوئی نیا فریج بھی لیا جائے تو اس کیساتھ ایک کتابُک دیا جاتا ہے کہ اس فریج کو کیسے چلایا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک ریاست کی تشکیل نو اور پھر اسے چلانا صبر آزما مطالعہ، گہری علم اور وسیع لٹریچر سے ہی ممکن ہے اور میں اس لئے مطالعہ کا پابند ہوں کہ اسی انقلاب کا بوجھ موجودہ نظام کی شکست، نئی ریاست کی تشکیل اور اسے چلانا میری زندگی کا نصب العین ہے۔ اس لئے آسٹن فیلپس نے کہا تھا کہ “کوٹ پرانا پہنو کتاب نئی خریدو”۔

حوالہ جات
‏1. Paulo Freire, Pedagogy of The Oppressed, 1970
2. روبینہ سہگل، انسانی حقوق کی تحریک، فکشن ہاوس لاہور،2019
‏3. UNESCO, Human Development Report, 2003
‏4. Mao, The Yan’an Talks as Literary Theory, 1942
5. ڈاکٹر سلیم کرد، یوسف عزیز مگسی اور بلوچستان ریفارمز موومنٹ، 2018
‏6. Dale Carnegie, Biographical Round-up, 1944
‏7. Nehru, Glimpses of The World History, 1934
‏8. Dale Carnegie, Biographical Round-up, 1944


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں