کتاب دوست سنگت سفر خان۔ مبشر بلوچ

196

کتاب دوست سنگت سفر خان

تحریر: مبشر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کتب بینی دل کو سکون دینے والا ایک مشغلہ، علم و شعور میں اضافے کا سبب بلکہ ذہنی تخیل کی پرواز اسی سے ہے۔ نئی دنیاؤں کی سیر سے لیکر نئے خیالات سے روشناس ہونے تک، زندگی کو سمجھنے سے لیکر آسمانوں کو تسخیر کرنے تک سب کتابوں میں پنہاں ہے۔ صبر کی گہرائیوں سے لیکر سوچنے کی صلاحیت تک، علم کے ذخائر سے لیکر تہذیبوں ثقافتوں اور زمانوں سے جڑنے تک انہی کتابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

کتابوں کے رسیا سنگت سفر خان کے موبائل کے پی ڈی ایف میں تنظیمی لٹریچر سے لیکر شاعری تاریخ فلسفہ، سیاست، جنگ اور دیگر علمی موضوعات پر متعدد کتابیں موجود تھیں۔

اپنے فارغ اوقات میں وہ اکثر موبائل پی ڈی ایف سے مطالعے میں مشغول رہتا، میں نے اسکے مطالعے والے عمل کا بارہا مشاہدہ کیا تھا۔ جس علاقے میں ہمارا کیمپ تھا وہاں درختوں کی بہتات تھی۔ گرمیوں کے لمبے دن تھے۔ دوپہر کو کھانا کھانے کے بعد سارے دوست جب فارغ ہوتے تو تھوڑی دیر کے لئے ہر کوئی ایک درخت کے نیچے اپنی جگہ پر آرام کرنے جاتا، پھر میں اور سنگت سفر خان بھی اٹھ کر اپنے جگہوں پر جاتے۔ اتفاق سے اسکی آرام گاہ میرے سونے کی جگہ سے دو چار قدم نشیب میں ایک درخت کی نیچے واقع تھا۔ اس دوران جب بھی میں اسکی آرام گاہ کی طرف دیکھتا بسا اوقات اسے موبائل پر مطالعے میں مشغول پاتا۔ کبھی کبھار میں جب رات دیر تک جاگ کر پی ڈی ایف سے کوئی کتاب یا آرٹیکل پڑھتا یا پھر کوئی فلم دیکھ رہا ہوتا تو جونہی سر اٹھا کے جانب دیکھتا وہ لیٹے ہوئے اپنے موبائل پر خاموشی سے کچھ دیکھ رہا ہوتا اور اسکے معمول کے مطالعے والی عادت اور زوق کو دیکھ کر اندازہ ہوتا کہ وہ ضرور کسی کتاب کا مطالعہ کررہا ہے۔

جب بھی مجھے موقع ملتا، یا میں سنگت سفرخان کو فارغ پاتا تو کچھ سیکھنے کے بہانے اس کے پاس جاکر بیٹھتا، اور مختلف موضوعات کو چھیڑنے کی کوشش کرتا۔ وہ اپنے وسیع مطالعہ، غور و فکر اور تحریکی مسائل و معاملات کی باریکی سے مشاہدہ بینی کرنے کی وجہ سے ہر طرح کے موضوعات پر نہ صرف عبور رکھتے بلکہ ان پر علمی انداز میں تبصرے کرتے وقت زیر بحث موضوع پر مکمل گرفت رکھتے اور اس کے ہر پہلو کو بڑے شائستہ انداز میں زیر بحث لاتے۔ ان مباحث کے دوران جب بھی میں اس سے کوئی سوال پوچھتا وہ میرے ہر سوال کا اطمینان بخش جواب دیتے تھے اور میں اس کے اس علمی قابلیت کا ہمیشہ معترف رہونگا۔ سفر خان کی صحبت میں جتنا عرصہ بھی رہا میری خواہش اور کوشش دونوں یہی رہیں جس قدر ممکن ہو سنگت کی صحبت سے استفادہ حاصل کروں۔

مطالعے کی طرح سنگت سفرخان کو شاعری سے بھی دلچسپی تھی۔ دیگر کتابوں کی طرح اس کے موبائل پی ڈی ایف میں بلوچ شعراء کے درجن بھر کتابیں تھیں جن کے رزمیہ، نظم اور اشعار وغیرہ کو وہ گہرائی سے پڑھ کر بیاں کرتا جس سے اسکی شاعرانہ زوق کا پتہ چلتا تھا۔ اکثر و بیشتر رات کے وقت کیمپ میں جس جگہ کھانا پکانے کےلئے مختص کیا گیا تھا وہاں چولہے میں جلنے والے آگ کے ارد گرد بیٹھ کر دوست محفل مشاعرہ سجاتے، اور یہ محفل مشاعرہ بھی بیشتر اس کے اسرار پر سجتا تھا۔ محفل مشاعرہ میں جب دوست اپنے پسندیدہ اشعار بیان کرتے وقت دوسرے دوستوں سے ‘ واہ واہ’ اور ‘باز جوان’ وغیرہ کے ڈھیر سارے داد سمیٹ لیتے۔ اس وقت کچھ ایسا سماں بن جاتا جس سے محسوس ہوتا واقعی یہ شعراء کا کوئی بزم ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سنگت سفر خان مختلف شعراء کے اشعار رزمیے اور نظم بیان کرنے کے ساتھ اکثر و بیشتر مشاعروں میں بلوچ شاعر ابصار بلوچ کا ایک شاعری جو فدائی گودی سمیعہ بلوچ پر ہے، بیان کرتے تھے۔

کیمپ میں ہمارے پاس ایک فٹبال تھا نہ جانے کس سنگت نے لایا تھا سہ پہر کو جب دھوپ کی تمازت کم ہوتی تھی تو سنگت سفر خان فٹبال کو بغل میں دبائے اوتاخ میں موجود دوستوں کو آواز دیتا ‘ببو بئی فٹبال نا ورزش اس کین’ کیمپ میں ٹریننگ کے لئے مختص کردہ جگہے پر دوست جمع ہوتے اور کھیلنے لگتے۔ وہ فٹبال کھیلنے سے کافی لگاؤ رکھتے اور ایک اچھے فٹبالر تھے۔ وہ جب تک شہر میں موجود رہے فٹبال کھیل کر اپنے شوق کی تشفی کرتے رہے اسکے بعد جب شہر سے پہاڑی محاز پر منتقل ہوئے تب بھی خود کو فٹبال کے شوق سے کنارہ کش نہیں کرسکے۔ سنگت سفر خان جب بھی کیمپ میں موجود ہوتا تو ہنسی مذاق اور کھیل کود کا ایک خوشگوار ماحول ضرور بنتا تھا۔

سنگت سفر خان یقیناً بلوچ گل زمین کا حقیقی بیٹا ہے جس نے بلوچ گل زمین کی آزادی اور قومی شناخت کی بحالی کی جدوجہد میں بہادری سے اپنا قومی فرض نبھا کر رخصت ہوگیا۔ جاتے ہوئے اس نے ہم جیسے پیچھے رہ جانے والوں کے لئے اپنی راہ عمل چھوڑ دیا ہے۔ اور اسکے سر راہ اپنے لہو سے ایک چراغ جلا کر گیا تاکہ اس راہ پر چلنے والوں کی آسانی کےلئے اپنا روشنی بکھیرتا رہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں