کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

105

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کی قیادت میں بلوچستان سے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5642 دن مکمل ہوگئے، بی ایس او کے سابق چیئرمین چنگیز بلوچ، موجودہ چیئرمین جیئند بلوچ، حسیب بلوچ کے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان میں کئی سالوں سے فوجی آپریشن جاری ہیں، اور یہ چھٹا بڑا فوجی آپریشن 2002 سے ایک منفرد انداز میں تاحال جاری ہے۔ اس دوران ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو ریاستی خفیہ اداروں نے جبری طور پر اغوا کیا، جو آج بھی ٹارچر سیلوں میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہزاروں بلوچوں کو ماورائے قانون قتل کرکے ان کی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئیں۔ خضدار کے علاقے توتک میں اجتماعی قبروں سے لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہونا ریاستی ظلم و بربریت کا واضح ثبوت ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاست اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے ہر حربہ آزما رہی ہے، مگر بلوچ قوم کبھی ان مظالم کو قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ شہدا کی قربانیوں نے دنیا کی توجہ اس جدوجہد کی طرف مبذول کروا دی ہے۔

ماما قدیر بلوچ کے مطابق 15 نومبر کو بولان میں پاکستانی فوج نے ایک آپریشن کے دوران گن شپ ہیلی کاپٹروں سے اندھا دھند شیلنگ کی، جس میں بلوچ نوجوان شہید کیے گئے اور کئی بے گناہوں کو جبری اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ان واقعات پر پوری بلوچ قوم غم و غصے میں مبتلا ہے، اور تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی، اور مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں نے اسے ریاستی بربریت کا تسلسل قرار دیتے ہوئے شہدا کو سرخ سلام پیش کیا، جنہوں نے انسانیت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔