جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر مولانا واسع و دیگر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ تین چار ماہ سے دہشتگردی کی نئی لہر نے شدت اختیار کرلی ہے۔
انہوں نے کہاکہ جمعیت علمائے اسلام کو بلوچستان میں دہشتگردی کی نئی لہر پر تشویش ہے ۔دہشتگردی کیخلاف تمام اضلاع میں احتجاج کیے گئے ۔
انہوں نے کہاکہ 9 نومبر سے پشین اور چمن میں مدارس پر چھاپے لگنا شروع ہوئے ۔اسکول جانے والے بچوں کو وین سے اتر کر اغواء کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ کوئٹہ میں ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ، ہرنائی و دکی کوئل مائنز پر حملے کیے گئے ۔روانہ کی بنیادی پر بلوچستان میں دھماکے میں 20 سے 25 لوگ قتل ہوئے رہے ہیں، بلوچستان کے حالات دن بہ دن خراب ہورہے ہیں۔
مولانا واسع نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام نے مدارس پر چھاپے اور بلوچستان حالات پر اجلاس ہوا، اجلاس میں ساتھیوں نے رپورٹ پیش کیئے کہ آئندہ حالات مزید خراب ہونگے ۔
انہوں نے کہاکہ اگر حالات کنٹرول نہیں ہوسکتے تو اربوں روپے امن وامان کیلئے کیوں رکھاجاتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اپنی ذمہداریاں پوری نہیں کی، کسی بھی ذمہدار کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی ۔
انہوں نے کہاکہ ضلع دکی میں رات سے صبح تک دہشتگردی نے کارروائی کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کہاں تھے، کارروائی کے بعد دہشتگرد آرام سے چلے جاتے ہیں کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہمارے ادارے ہماری حفاظت نہیں کرسکتے تو ہم جواب طلب کرینگے ، قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظ نہیں دے سکتے تو لوگوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دیں۔
انہوں نے کہاکہ مدارس پر بلاوجہ چھاپہ مارا جاتا ہے ، 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد مدارس کو رجسٹریشن کرنے آئینی حق ملا ہے بعض عناصر نہیں چاہتے مدارس رجسٹرڈ ہو، مدارس ہمارے ریڈ لائن ہیں کسی نے غلط نظر سے مدارس پر دیکھا تو حکمرانی کی تخت کو زمین بوس کردینگے، مدارس پر تلاشی لینے کا ایک طریقہ ہے غیر قانونی غیر اخلاقی طریقے سے مدارس پر چھاپے قبول نہیں، اگر مدارس کیخلاف روایہ تبدیل نہیں کیا گیا تو تحریک چلائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کرتے، بلوچستان میں فوجی آپریشن سے مزید حالات خراب ہونگے۔