بلوچ وائس فار جسٹس نے ایک پریس ریلیز بیان میں دلجان بلوچ کی عدم بازیابی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جبری گمشدگی کو چھ ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ دلجان بلوچ کو 12 جون 2024 کو ان کے گھر سے بوڑھے والدین اور دیگر اہل خانہ کے سامنے حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا تھا۔ تاحال نہ انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے خاندان کو ان کی موجودہ حالت یا ٹھکانے کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ ریاستی ادارے ان کی گمشدگی پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، جس سے خاندان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دلجان بلوچ کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ آج بھی آواران میں ڈی سی آفس کے سامنے دھرنا جاری ہے۔ اس سے قبل 3 اکتوبر 2024 کو خاندان نے چار دن تک دھرنا دیا، جس کے بعد 6 اکتوبر کو انتظامیہ نے معاہدہ کیا اور یقین دہانی کرائی کہ دلجان بلوچ کو دس دن کے اندر بازیاب کیا جائے گا۔ لیکن افسوس، اس معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ اب خاندان 18 نومبر سے دوبارہ ڈی سی آفس آواران کے سامنے دھرنا دے رہا ہے اور آواران-کراچی شاہراہ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
بیان میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ انتظامیہ دھرنے کے شرکاء کو ہراساں کر رہی ہے۔ دوکانداروں کو دھرنے کے لیے ٹینٹ اور دیگر سامان فراہم کرنے سے منع کر دیا گیا ہے، جبکہ علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بھی معطل کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدامات احتجاج کو دبانے کی ناکام کوشش ہیں اور عوام کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں کہا کہ یہ پہلی بار نہیں کہ ریاستی ادارے معاہدوں سے مکر گئے ہوں۔ 1948 سے لے کر اب تک کئی بار ایسے وعدے کیے گئے، جنہیں پورا نہیں کیا گیا۔ حالیہ مثال کوئٹہ سے جبری لاپتہ ظہیر بلوچ کی بازیابی کے لئے دھرنا شرکاء سے ریڈ زون کوئٹہ میں ان کے لواحقین اور سیاسی قیادت کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا کہ پندرہ دن کے اندر انہیں بازیاب کیا جائے گا یا ان کی گمشدگی کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی۔ تاہم، اس معاہدے پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔
بیان میں انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی، اور میڈیا سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ آواران دھرنے کے شرکاء اور دلجان بلوچ کے اہل خانہ کے مطالبات کی حمایت کریں۔ دلجان بلوچ، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، اور ظہیر بلوچ کی فوری اور باحفاظت بازیابی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگیاں نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ مسئلہ عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے فوری سیاسی اور سماجی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اگر ان مطالبات پر فوری عمل نہ کیا گیا تو عوامی بےچینی اور مایوسی میں اضافہ ہوگا، جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔