اسپیس ایکس کے اسٹار شپ بوسٹر راکٹ کو لانچ ٹاور پر اتارنے کی کوشش ترک

74

امریکہ کی نجی خلائی کمپنی ’اسپیس ایکس‘ نے منگل کو اپنا ایک اسٹار شپ راکٹ لانچ کیا، جس کے بوسٹر راکٹ کو اپنے واپسی کے سفر کے بعد لانچ ٹاور کے روبوٹک آرمز کی مدد سے اترنا تھا۔ مگر اس عمل میں کمپنی کو کامیابی نہیں ملی۔ تکنیکی وجوہات پر مشن کے اس حصے کو ترک کر دیا گیا۔ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ اس راکٹ کے مقابلے میں ایک چھوٹے راکٹ پر اس تجربے کی کامیابی کے بعد منگل کو یہ مشق دوبارہ کی گئی۔ لیکن اسپیس ایکس کا کہنا ہے کے بعض وجوہات کی بنا پر بوسٹر کا رخ خلیج میکسیکو طرف موڑ دیا گیا۔ بوسٹر تین منٹ کے بعد پانی سے ٹکرا گیا۔

اسپیس ایکس کے ترجمان ڈین ہوٹ نے کہا ہے کہ بوسٹر راکٹ کو لانچ ٹاور پر روکنے کے تمام تقاضے پورے نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے فلائٹ ڈائریکٹر نے بوسٹر کو لانچ سائٹ پر جانے کا حکم نہیں دیا۔ ترجمان نے اس بارے میں تفصیل نہیں بتائی۔

راکٹ لانچ کے وقت نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مشاہدے کے لیے موجود تھے۔

اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ ایلون مسک کی خلائی کمپنی اسپیس ایکس کا تقریباً 400 فٹ اونچا اسٹار شپ راکٹ اپنے خلائی جہاز سمیت ریاست ٹیکساس سے لانچ کیا جا رہا ہے۔

اس کا مقصد نہ صرف اسٹار شپ خلائی جہاز کو لانچ کرنے کے بعد واپس زمین پر لانا ہے بلکہ اس کے بوسٹر راکٹ کو بھی سلامتی کے ساتھ واپس پلیٹ فارم پر اتارنا ہے۔

خبروں میں بتایا گیا تھا کہ اسٹار شپ کا بوسٹر جب تیز رفتاری سے لانچ ٹاور کے قریب پہنچے گا تو راکٹ کے انجن اس کی رفتار انتہائی کم کر دیں گے جس کے بعد وہاں نصب فولادی بازو اسے اپنے شکنجے میں لے کر ساکت کر دیں گے۔

منگل کی اس فلائٹ سے تقریباً ایک ماہ قبل بوسٹر راکٹ کو لانچ اسٹیشن پر اتارنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا جس نے اسپیس ایکس کو خلائی راکٹوں کی صنعت میں ایک عالمی رہنما کے مقام پر فائز کیا۔

اسپیس ایکس کے ایک بھاری بھرکم راکٹ کو لانچ پیڈ پر اتارنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر دنیا بھر میں دکھائی گئی تھی۔

اس تاریخی کامیابی کا ذکر نو منتخب صدر ٹرمپ نے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اپنی فتح کی تقریر میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ دیکھنا ایک خوب صورت چیز تھی‘۔

اسپیس ایکس کی جانب سے لانچنگ اسٹیشن پر راکٹ کو اتارنے کا تجربہ دہرانے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اس نوعیت کا پہلا تجربہ کوئی اتفاقیہ عمل نہیں تھا اور اسے ایک بڑے راکٹ پر بھی دہرایا جا سکتا ہے۔

امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی اپنے آرٹیمس پروگرام کے تحت اس عشرے کے آخر تک اسٹارشپ راکٹ کے ذریعے اپنے خلاباز دوبارہ چاند کی سطح پر اتارنے کی تیاری کر رہا ہے۔

اگر یہ مشق طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق انجام پاتی تو بلندی سے واپس آنے والے بوسٹر راکٹ کی رفتار لانچ ٹاور کے قریب پہنچ کر انتہائی سست پڑ جانی تھی۔ اس موقع پر دو روبوٹک آہنی ہاتھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتے اور بوسٹر راکٹ ساکت ہو جاتا۔ اس عمل میں تقریباً آٹھ سے دس منٹ لگنے تھے۔

جب کہ اس راکٹ کا اسٹارشپ نامی اوپر کا حصہ، زمین کے مدار میں داخل ہونے کے بعد بحر ہند میں اتر گیا ہے۔