آفتابِ عالمتاب اور جنگ – برزکوہی

277

آفتابِ عالمتاب اور جنگ

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

سیاہ کوہ و منجرو کی ہواؤں کی نگہت، زخموں سے چُور چُور راسکوہ کی زخمی بدن کے درد بھرے سائے میں، نوشکل کی پُرمہر، پُرحوصلہ، پُرعظمت اور غیرت و شجاعت کے فلسفے میں اور میر فضل خان بادینی کے مقدس گھر میں جنم لینے والے شاہ فہد مثلِ آروس، بارود کی مہندی ہاتھوں پر مَلے اپنی گاڑی میں اپنے تاریخی اور آخری مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھ کر اپنی محبوبہِ وطن کی آغوش میں سو کر ابد تک جاگنے کیلئے شاہ فہد سے آفتابِ تاباں، آفتاب رو، آفتابِ شجاعت، آفتابِ طلعت، آفتابِ گرداں، اور اپنی آفتابی چہرے سے آفتابی گلقند بن کر دشمنوں کے لیے تاابد آفتابِ حشر اور آفتاب بامِ تاریخ بن گئے۔ نوشکل کے نکہتِ آفریں ہواؤں میں اُس کی ہنسی کی مہک روزِ روشن کی طرح چمکتی ہے اور اس سرزمینِ نکہت خیز کو حقیقی مہر و محبت کے سنگم سے فیض یاب کرتی ہے۔ اس وادیِ فُرقاں میں یہ آفتاب طلوع ہوکر اپنی قربانی کی روشنی سے سرزمین سمیت ساری دُنیا کو روشنی سے منور کرتے ہوئے، آسمانِ عشقِ وطن میں ابد تک آفتابِ عالمتاب بن جاتا ہے۔ تاریکی کے آسیب سے اپنے اذہان کو نکالنے کیلئے اس آفتاب کی روشنی کو آنکھوں میں بھرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طاقتِ بے باک کو سمجھنا لازمی ہے۔

شعورکی ابتداء سے لیکر سنجیدگی کی انتہاء تک پہنچنے والے آفتاب کی شخصیت کے سب سے اہم پہلو اس حد تک متاثر کن تھے کہ کوئی بھی دل و دماغ یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ آفتاب بارود کی رقص میں مٹی کی ہواؤں میں تحلیل ہوکر ایک پروانہِ وطن اور دیوانہِ گُلشنِ طلسم بن کر اپنی گل زمین کو آغوش میں لیکر بس اپنے آنے والی نسلوں کے دلوں اور تاریخ کے پنوں میں آفتاب عالمتاب ہوگا۔ لیکن خاموشی کی وادی میں اُفقِ عشقِ زمین میں سرمست یہ دیوانہ اپنے خیال کی آخری حد تک پہنچ چکا تھا، جس کی طرف سارتر نے اپنے آخری ساعتوں کے دوران اشارہ کیا تھا۔ فہیم شناس کاظمی اپنی تدوین و ترتیب کردہ کتاب “ژاں پال سارتر کے انٹرویو” میں 15 اپریل 1980 کو پیرس کے ایک ہسپتال میں آخری سانس لینے والے سارتر کے آخری پیغام کا حوالہ دیتے ہیں کہ “ہر قیمت پر اپنے خیال کی آخری سرحد تک پہنچو، اور سوچنے سے کبھی گُریز نہ کرو۔” آفتاب اپنے خیال کی آخری حد تک پہنچ چکا تھا اور یہ جان چکا تھا کہ گُلزمین کو روشنی سے منور کرنے کیلئے یہ فیصلہ لینا ہی پڑے گا۔ وہ اپنے انفرادی وجود کے مفہوم کو سمجھ چکا تھا اور اُسے اجتماعی وجود کی خاطر وقف کرنے کیلئے کمربستہ تھا۔

آفتاب ایک فلسفی کی وہ کتاب تھے، جسے ہم مطالعہ کرنے، جاننے اور سمجھنے کے بعد ہم اس علم کی روشنی سے بہرہ مند ہوتے ہیں کہ زندگی صرف زندہ رہنے کا نام نہیں، بلکہ زندگی تاریخ ہے اور تاریخ زندگی ہے۔ یہ کتاب ہمیں درسِ محبت کے ساتھ ساتھ یہ سکھاتی ہے کہ خاموشی کے دامنِ غیر میں پناہ لینے سے تاریخ کے خونخوار و مہلک وار اقوام کو اپنی لپیٹ میں لیکر تاریکی کی وادیِ آسیب میں زمین بوس کرتے ہیں۔ آفتاب کی قربانی ہمارے ماتھے پر روشنی کے شبنم کے قطرے بکھیر کر یہ پیغام دیتی ہے کہ مدافعت در در ٹھوکر کھانے اور رحم و کرم کی بھیک مانگنے سے نہیں بلکہ دشمن کے خلاف انتہا تک پہنچنے سے ہی سرخروئی کی جانب رختِ سفر باندھ سکتی ہے۔ وہ یہ درس دیکر اُفقِ قربانی میں ہمیشہ کیلئے روشن ہو کر چلے گئے کہ قبضہ و بیرونی یلغار کے ایّام میں ہم جنگ کے سوا کوئی دوسری چیز سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسی نقطے کو Stanley Hauerwas اپنی تصنیف Sacrificing the Sacrifices of War میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ “ہم جنگ سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے، کیونکہ جنگ نے ہمارے تخیل کے عادات و اطوار کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ یہ بات ایک امن پسند کیلئے بھی اُتنی ہی سچی ہے، جتنا کہ ایک برحق جنگجو کیلئے ہے۔” دشمن کی یلغار اور بیرونی قوت کے خلاف وار کرنے کے درمیان ہی ہمارا تخیل ایک خوبصورت وادیِ نکہت و جمال تک پہنچ سکتی ہے، کیونکہ حقیقت کی تلخی جنگ ہے اور جنگ نے ہمیں تخیل سے حقیقت تک پہنچنے کیلئے روک رکھا ہے۔ آفتاب اس کشمکش کے بادلوں سے نکل کر چمکتے رہے اور ہمیں یہ پیغام دے کر امر ہو گئے کہ تخیل کے عادات کا قبضہ تخیل سے نہیں، بلکہ عمل اور قربانی سے مٹتی ہے۔

فلسفہِ آفتاب یہ کہتی ہے کہ جنگ ایک ایسی تلخ حقیقت کی مانند ہے، جس سے فرار ہونا از خود اپنے انفرادی و اجتماعی وجود سے بھاگنے کے مترادف ہے۔ یہ حقیقت ہمارا تعاقب کرتے ہوئے ہمارے اذہان میں جگہ بنا لیتی ہے۔ یہ خون میں جذب ہوتی ہے اور آنکھوں میں آگ بھردیتی ہے۔ ہم سانس لینے کی سکت سے محروم ہوتے ہیں، لیکن اس سے چھٹکارہ یا اسی میں اپنے بقاء کی ضمانت کو یقینی بنانے کیلئے ہمیں اس سے دامن بچانا نہیں چاہیے، بلکہ اس کو مدافعانہِ طرزِ جنگ سے مٹانا چاہیے اور امن کی وادیِ نکہت و جمال کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس کی سختی، تکلیف دہ سفر اور پُرمشقت سائے میں ہی ہمارے انفرادی و اجتماعی وجود کے معنی و مقصد سمیت عظمت کا راز پنہاں ہے۔ اسی پہلو کو Cris Hedges اپنی کتاب War is a Force That Gives Us Meaning میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ “ جنگ کی دیرپا کشش یہ ہے کہ اس میں تباہی و قتل و غارت کے باوجود یہ ہمیں وہ چیز مہیا کرسکتی ہے، جس کی ہم زندگی میں خواہش رکھتے ہیں۔ یہ ہمیں ایک مقصد، معنی اور جینے کی وجہ دے سکتی ہے۔ جنگ ایک دلچسپ امرت ہے۔ یہ ہمیں ایک عزم و مقصد دیتی ہے اور عظیم بننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔” یقیناً آفتاب اس دلچسپ امرت کو تباہی کی تلخی کے باوجود پا چکے ہیں اور عظمت کے وہ شاہ بن چکے ہیں، جو لاموجود ہو کر بھی اپنی موجودگی کے احساس سے ہمیں بہرہ مند کررہے ہیں۔

جنگ میں بہادری کیا ہے؟ فلسفہِ آفتاب کہتا ہے کہ بہادری وہ زندگی ہے جس کو پانے کےلیے اور جس کو جینے کے لیے متزلزل سوچ، متذبذب ارادوں اور الجھنوں سے نکل کر میدان میں وہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے، جہاں ہر بونے شخص کو پہنچنے میں صدیاں لگ جاتی ہوں۔ فلسفہِ آفتاب ہمیں برتری و بہادری کی اعلی طمانیت کیلئے جنگ میں قربانی جیسے سخت اور پُرخطر فیصلے کو اپنانے کا پیغام دیتی ہے۔ کیونکہ جنگ نہ صرف ہماری بقاء کا محافظ ہے، بلکہ تاریخی طور پر انسان کی سخت جانی اور نسلوں کی پرورش کا بھی ضامن ہے۔ اسی پہلو کو ویلئیم جیمز اپنی تصنیف The Moral Equivalent of War میں کچھ یوں بیاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “جنگ ہمارے اصول و آدرشوں کا عظیم محافظ ہے۔ انسانی زندگی کسی سختی کے بغیر حقیر ہوگی۔ خطرے اور جرات کے انعامات کے بغیر تاریخ بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ ہر شخص میں ایک فوجی کردار پنہاں ہوتی ہے جو یہ محسوس کرتا ہے کہ نسل کی افرائش کا عمل رکنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ ہر شخص اس کی برتری کیلئے حساس ہوتا ہے۔” آفتاب کی قربانی اور حساسیت موجودہ اور آنے والی نسلوں کی افرائش کی برتری کیلئے ایک مشعلِ راہ ہے۔ اُسکا عمل ان الفاظ کی practical تشریح ہے جو اس پیغام کو گُلزمین میں در در تک پہنچائے گی کہ خطرہ، جرت و شجاعت اور قربانی کے انعامات کے بغیر نہ صرف تاریخ، بلکہ زیست و وجود بھی حقیر ہونگے۔

مخلصی، ایمانداری اور احساس زمہ داری کیا ہے؟ فلسفہِ آفتاب کہتا ہے کہ اپنی انفرادی احساس، مزاج و طبیعت سے ہٹ کر مخلصی و ایمانداری اور احساس زمہ داری کی معیار و تعریف اور تقاضات کو اجتماعی و قومی اور انسانی تعریف و معیار اور تقاضات کی کسوٹی پررکھ کر اپنانا اور اختیار کرنا مخلصی و بے غرضی کی اعلیٰ سطح ہے۔ اس آفتابی فکر کو اپنانے کے بعد تب جاکر علمی و فلسفی بنیادوں پر مخلصی و ایمانداری اور احساس زمہ داری کی بلندیوں کو چھو لینا بقاء کا ضامن ثابت ہوگا۔ جذبہ و احساسِ کا تقاضہ اور ذمہ داری اُس وقت قفل لگائے ہوئے دروازے کو توڑتی ہے، جب قومیت اور اجتماعیت کی بقاء کا نظریہ جان و دل میں سما جائے اور مخلصی، ایمانداری اور قربانی کیلئے شعور سے لیس کرے۔

مخلصی کی کُنجی انفرادیت کے نفس کو قومیت میں جذب کرکے حاصل کی جاتی ہے، جہاں فرد کی ایمانداری کا محور و مرکز قوم کی سربلندی و خوشنودی ہوتی ہے۔ اس مرکزِ مقدس میں زیست کی تمام بندشیں ٹوٹ جاتی ہیں اور موت کی راگنی ابدیت کے در تک پہنچتی ہے۔ کیونکہ قومیت کا نظریہ وہ روشن آفتاب ہے، جو ایک فرد کو انفرادیت کے بے نشاں جزیروں میں فکر و تمدن کی روشنی سے منور کرتی ہے اور اجتماع کے دروازے تک بلا خوف و خطر پہنچانے کی سعی کرتی ہے۔ اسی نقطے کو غلام اصغر خان اپنی کتاب “نظریہ قومیت، عالمی و مقامی تناظر” میں یوں بیاں کرتے ہیں کہ “قومیت فرد کے نفس کو قوم میں ضم کرکے قربانی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہ قوم پرستی کے جذبات غیر مسلح لوگوں میں ایک جوش پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دنیا کے طاقتور ترین فوجوں کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ قوم پرستی کی طاقت ہے جو قوموں کو غلبہ حاصل کرنے اور مغلوبیت سے بچنے کے قابل بناتی ہے۔”

حالتِ جنگ کے درمیان منفی سوچ کیا ہے؟ فلسفہِ آفتاب اس کو یوں بیان کرتی ہے کہ کچھ لوگ منفی ہوتے ہیں، منفی سوچتے ہیں، اور ہر شعبے میں منفی پہلو کی تلاش بھی منفی نقطۂ نظر سے کرتے ہیں اور چیزوں کی مثبت پہلووں کو یا تو مکمل نظر انداز کرتے ہیں، یا تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ انہیں جہاں بھی، کہیں بھی، کوئی بھی منفی چیز نظر آئے، تو وہ خوشی محسوس کرتے ہوئے اس کی بھرپور انداز میں تشہیر کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایسے لوگ کسی بھی انتہائی معمولی پیغام کی رسائی میں ایک منٹ ضائع نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ نفسیاتی طور پر ہمیشہ اُنہی پہلوؤں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جہاں ذرا سی بھی خامی و کمزوری وجود رکھ کر اُن کی ذہنی ماحول سے میل نہ کھائے۔ اذہان کی منفی سوچ کو پروان چڑھانے کا عمل اصل میں اپنے خواہشات کی ڈُوری کو تھامنا اور عملی اقدامات سے دامن بچانے کی وجہ سے ہی نمو پاتی ہے۔ خواہشات سوچ کی بالیدگی کے سامنے ایسی دیوار کھڑی کرتے ہیں، جس سے عمل کی خوبصورت منظر کو دیکھنے اور برتر فکر و تمدن کی روشنی سے منور ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی شخص دیوار کو توڑنے کی کوشش میں مشقت سے کام نہیں لیتا ہے اور اسی منظر نامے میں نمو پاتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ منفی سوچ کا دامن پکڑ کر ہر اُس شخص کو حقیر نظروں سے دیکھتا ہے، جو دیوار کو توڑنے کی کوشش میں مشغول ہوتا ہے۔ آفتاب اسی دیوار کو توڑ کر طلوع ہوچکے ہیں اور ہمیں اس تاریک زدہ سوچ سے نکلنے کیلئے آسمانِ وجود پر چمک رہے ہیں۔

فلسفہِ آفتاب اس امر کو عیاں کرتی ہے کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منفی سوچ کے مالکوں کا واسطہ خود بخود منفی لوگوں سے نہیں پڑتا ہے، بلکہ وہ ہمیشہ زندگی میں اس کوشش میں مگن ہوتے ہیں کہ کہیں بھی اور کیسے کرکے ہمارا واسطہ منفی لوگوں اور منفی ماحول سے بنے۔ یہ لوگ خود کو عالم و فاضل تصور کرتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارا نقطۂ نظر، اپروچ اور فکر باقی تمام لوگوں سے برتر و اعلیٰ ہے۔ وہ دن و رات معاملات کی منفی چیزوں کو ڈسکس کرتے اور پھیلاتے ہیں تاکہ ہمارے منفی سوچ کو تسکین حاصل ہو۔ بھلے ہی یہ منفی رجحان ، منفی زہنیت، منفی اپروچ منفی نقطہ نظر وقتی طور زہنی سکون ہی سہی، لیکن یہ دراصل ایک مہلک نشہ ہوتی ہے۔ اس میں وقتی طور زہنی سکون کی حالت میں انسان دھت ہوکر مدہوش و مگن تو ہوتا ہے، مگر انسانی زہن و انسانی جسم اور انسانی شخصیت اور کردار پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ سب سے اہم اور خطرناک اثر یہ ہے کہ اس کی شخصیت و کردار سے آہستہ آہستہ لوگ بیزار ہوجاتے ہیں اور اس سے نفرت کرتے ہیں اور دور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور لوگوں کے لیے وہ انسان نہیں بلکہ اذیت گاہ بن جاتا ہے۔

دوسرا منفی ذہنیت اس کی سابقہ صلاحیتوں کو مسخ کرکے مزید چل کر آگے تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کے مادے کو ختم کردیتی ہے اور پھر اس کا کردار ایک انتہائی محدود سرکل میں مقید ہوکر، اس میں کچھ بننے اور سمجھنے کی ہمت کو مسدود کردیتی ہے۔ اس سے بچنے یا نجات پانے کا واحد حل و علاج منفی سوچنے سے زیادہ منفی لوگوں اور منفی لوگوں کی صحبت سے خود کو ہمیشہ مکمل دور رکھنا، از خود چیزوں کو ہمیشہ مثبت انداز میں دیکھنا اور پرکھنا ہوتاہے۔ حتیٰ کہ منفی چیزوں میں بھی مثبت چیزوں کو تلاشنے کی بھر پور کوشش کرنا چاہیے اور معاملات کے مثبت پہلوؤں پر بحث و مباحثہ کرنا اور اُن کی تشہیر کرنا چاہیے۔ اسی سے ہی تخلیقی صلاحیتوں کی بھر مار شروع ہوگی اور انسان عظیم کردار کی اُفق کو چھونے میں کامیاب ہوگی۔ فلسفہِ آفتاب کے وارث شاہ فہد ان مراحل کی باریکیوں کو سمجھ چکے تھے؛ وہ جان چکے تھے کہ نوآبادیات ایک ایسی نفسیاتی فیکٹری تشکیل دیتی ہے، جہاں سے منفی فکر و سوچ پروان چڑھتے ہیں اور مدافعانہ جنگ کے دوران اعلیٰ ترین اقدامات کو بھی “بے معنی و غیر موثر کہا جاتا ہے” وہ جان چکے تھے کہ دراصل یہ منفی سوچ تحقیق کے بجائے کمفرٹ زون کی عطا کردہ زہر ہے، جسے امرت سمجھ کر وہ لوگ پیتے ہیں جو دراصل جدوجہد پر مکمل طور پر ایمان نہیں لاچکے ہیں، اور ذہنی حوالے سے پست ہوچکے ہیں۔ وہ جنگ کی شدت میں اپنے فرسودہ افکار کے خاتمے کے بکھرے ہوئے ٹکڑے دیکھ کر اس کوشش میں ہیں کہ کہیں کوئی خامی نظر آئے کہ ہم اپنی موجودگی کا بھی اظہار کر سکیں اور راحتِ جاں پا سکیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو علم و دانش کا مصنوعی لبادہ پہن کر کتابوں کی یوٹوپیا میں رہتے ہوئے “غلط”، “غیر ضروری” کا رٹ لگاتے ہوئے اپنی پستگی اور بونے قد کو عیاں کرتے ہیں۔ انہی جیسے لوگوں کیلئے ریگس ڈیبرے اپنی کتاب Strategy for Revolution میں Malraux کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“An intellectual is not just someone who needs books, but any man whose life is guided and committed to an idea.”

فلسفہِ آفتاب کی کتاب ہمیں جنگ کے حقیقی مقصد سے آشنا کرتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ جنگ ہولناک و خوفناک ہے، لیکن امن کا داعی ہے؛ جنگ زندگی کے مفہوم کو تلاشنے کا راستہ ہے، جہاں خون کے سمندر میں غرق ہوکر ہی امن اور خوشحالی کے جزیرے تک پہنچا سکتا ہے۔ فلسفہِ آفتاب ہمیں روشن فکر کے ساتھ یہ درس دیتا ہے کہ خوشی سے زیادہ معنی کی تلاش اہمیت کا حامل ہے۔ خوشی معنی و مفہوم کی تہہ میں از خود وجود رکھتی ہے۔ اسی نقطے کو Stanley Hauerwas اپنی تصنیف میں بھی کچھ یوں بیاں کرتے ہیں کہ “جنگ کے ذریعے ہم یہ دریافت کرتے ہیں کہ بھلے ہی ہم خوشی کی تلاش ممکن بناسکتے ہیں، لیکن “معنی” زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اور افسوس ناک طور پر جنگ کبھی کبھار “معنی” کو حاصل کرنے کیلئے انسانی معاشرے کا سب سے طاقتور راستہ ہے۔” جنگ افسوناک ناک و ہولناک ہے ہی، لیکن یہ Absurdity سے نکلنے کا راستہ بنتی ہے، جو ذہن سے شروع ہوکر عمل تک ختم ہوتی ہے، اور قربانی کی حد تک پہنچ کر ایک مظبوط و مستحکم فکر و فلسفہ بن جاتی ہے۔

فلسفہِ آفتاب میں صبر و برداشت، مستقل مزاجی، سنجیدگی، فن و ہنر سب سے بڑھ کر تنظیمی اصولوں، تنظیمی ڈسپلن اور تنظیمی ہدایات پر آخری حد تک من وعن عمل کرنے کا انمول درس جھلکتا ہے؛ خاص طور پر تین سال تک مجید برگیڈ کی فدائی بن کر واقعی ایک وطن کی باشعور و باعلم فن و ہنرمندی سے لیس باکردار اور رازدار فدائی ہونے کے عمل نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ آج آفتاب صرف ایک قومی فدائی نہیں بلکہ نسلوں تک آنے والے فدائین کے لیے ایک واضح مشعل راہ اور چیدہ ہیں۔ وہ روشنی کے علمبردار اور محبت کے پیامبر ہیں۔ اُنہوں نے ڈسپلن کی پابندی، رازداری، تنظیمی اصولوں کی افادیت کو اپنے عمل سے آشکار کیا۔ وہ جذبات سے نکل کر پختہ فکر و شعور تک پہنچنے والے سپوت ہیں۔ ڈسپلن اور حکمت عملی کی کُنجی داخلی طور پر شعور کی اعلیٰ سطح میں پنہاں ہوتی ہے، جس کو حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوچکے تھے۔ اسی پہلو کو رابرٹ گرین اپنی کتاب 33 Strategies of War میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ “آپ کا دماغ آپ کے جذبات سے کمزور تر ہے۔ لیکن آپ کو اس کمزوری کا احساس صرف مصیبت کے لمحات میں ہوتا ہے۔ یہ احساس اُس وقت بھی ہوتی ہے جب آپ کو طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ چیز جو آپ کو جنگ کی شدت سے نمٹنے کیلئے بہترین طریقے سے لیس کرتی ہے، وہ نہ تو زیادہ علم ہے اور نہ ہی ذہانت ہے، بلکہ آپ کے دماغ کو مظبوط اور جذبات پر قابو پانے کے قابل بنانے اندرونی نظم و ضبط اور سختی ہے۔ دوسرے ڈسپلن کی طرح اسے بھی ہم عمل، تجربہ اور تکلیف کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔”

آفتاب کے فیصلے سے لیکر عمل تک ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بروقت فیصلہ لینا اور انحصار کے بغیرکوئی بھی مقام و حالت میں تنظیمی ہدایت موصول نہ ہونے کی صورت میں بھی صحیح وقت پربروقت فیصلہ لینا اور ایک جنگی منصوبے کے ناکامی کی صورت میں فوری دوسرا منصوبہ تیار کرنا آفتاب کی جنگی فطرت تھی۔ ایک جنگی ماسٹر مائنڈ، ایک بہترین کمانڈر ایک باشعور، باعلم اور انتہائی سنجیدہ فدائی آفتاب سمیت ہر فدائی آج اپنے علم و شعور، کردار و بہادری، وطن دوستی، قوم دوستی اور انسانیت کی بقاء اور علمبرداری سے ثابت کررہی ہے کہ فدائی جیسے مہلک ہتھیار ہی سے ہم اپنی دشمنوں کو نیست نابود کرسکتے ہیں۔ کیونکہ طاقت کو طاقت، تشدد کو تشدد اور جبر و بربریت کی انتہاء کو بھی مدافعانہ کاری ضرب سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ انتہائی اقدامات سے ہی نوآبادکار کو نہ صرف نفسیاتی شکست سے دوچار کیا جاسکتا ہے، بلکہ قوم کے سامنے اُس کی مصنوعی طاقت اور بلند و بانگ دعوؤں کو بھی عیاں کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ طرزِ جنگ ہے جس سے اُس کی گرفت ڈھیلی پڑ کر ٹوٹتے ہوئے بکھر جاتی ہے۔ اسی لیے فرانز فینن اپنی کتاب Wretched of the Earth میں لکھتے ہیں کہ “نوآبادیات کی گرفت تب ڈھیلی پڑ جاتی ہے، جب اُس کی گردن پہ چاقو رکھا جاتا ہے۔”

اجازت دیجئے ختم مقال کیلئے یکبارگی اپنی طرزتحریر اور انداز بیان کو بالکلیہ تبدیل کردوں۔ جی بس اتنا یاد پڑتا ہے کہ وہ گذرے سال کا غالبا وہ ہفتہ تھا، جس ہفتے سمعیہ قلندرانی نے خودی خاک پر فدا کیا تھا۔ حلقہ یاراں کا ایک اتفاقی مجلس سجی تھی۔ ایک گھنٹے سے زائد اس موضوع پربے تکی بحث رواں تھی کہ الائچی سیاہ چائے کی لذت نکھارتی یا بگاڑتی ہے؟ یقینا موضوع اپنی سطحیت کی وجہ سے بلانتیجہ دم توڑ گیا، اور خاموشی مکاں گھیر گیا۔ تب ایک دوست کے منہ سے برجستہ یہ جملہ بغیر سیاق و سباق کے نکلا کہ “یہ لوگ موت سے ڈرتے کیسے نہیں؟ انکے چہرے پر سجی خود اعتمادی سے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ انکا پہلی بار نہیں، بلکہ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار مرکر دیکھ چکے ہیں۔” قریب ہی امریکی ادب کا دلدادہ ایک دوست بیٹھا ہوا تھا، جو گذشتہ موضوع پرچڑچڑاکر محض ایک جملہ ” الائچی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اچھی چائے ابلی نہیں سِمرڈ ہوتی ہے، ابال کر ہی پینا ہے تو پھرگھاس ڈالو یا الائچی کوئی فرق نہیں۔” بولنے کے بعد بس چپ سا تھا، وہ پھر بول اٹھا کہ “فدائین کے چہرے پر سجی طمانیت، اعتماد اورمسکراہٹ کی وجہ اور راز کا پتہ مجھے ہیمینگوے سے غیرارادی طور پر ملا۔” ساعت بھر خاموشی کے دوران مرکز توجہ پانے کے بعد وہ پھر بولا “ارنسٹ ہمینگوے کے ناول “فیئر ویل ٹو آرمز” کے مرکزی کردار فریڈرک ھنری اوراسکی محبوبہ کیتھرین بارکلی جنگ عظیم اول کے دوران اٹلی کے محاذ پرایک وداعی گفتگو کررہے ہوتے ہیں، جو سیاق و سباق کے بغیر کچھ یوں ہے:
“بہادر کی موت ایک بار آتی ہے، جبکہ بزدل ہزار بار مرتا ہے”
“اچھا؟ کس نےکہا ہے یہ؟”
“مجھے پتہ نہیں”
“یقینا یہ کسی بزدل کا قول ہوگا، اسے بزدلوں کے بارے میں بہت کچھ پتہ تھا لیکن بہادروں کے بارے میں کچھ بھی نہیں۔ بہادر روز دو ہزار بار مرتے ہیں، وہ بس اپنی تکلیف و موت ظاہر نہیں کرتے۔”
ہمینگوے کی بازبیان کے بعد وہ دوست دوبارہ بولا “تم درست فرما رہے ہو، یہ فدائین کی پہلی موت نہیں ہے، یہ بہادر اسے ہزار بار دیکھ چکے ہیں، بس چرچا نہیں کرتے، جس دل میں احساس ہوتا ہے، وہ ہر ناانصافی کو دیکھ ایک بار مرتا ہے۔”
اتنے میں ہماری ابلی سیاہ چائے بمعہ الائچی پک کر تیار ہوچکی تھی۔ جس پر ہمارے امریکی ادب کا دلدادہ دوست تپ کر قریب پڑے پال آسٹر کی کتاب “مسٹر ورٹیگو” اٹھا کر باہر نکل گیا۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں