بلوچستان میں پولیس کیسز کی تعداد 24 ہوگئی، ڈبلیو ایچ او کی تشویش کا اظہار

31

بلوچستان میں پولیو کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے صحت کے حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی پولیو ریجنل ریفرنس لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان اس سال سب سے زیادہ پولیو سے متاثرہ رہا ہے، جہاں 24 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ سندھ میں 12، خیبر پختونخوا میں 9 اور پنجاب و اسلام آباد میں ایک ایک کیس سامنے آیا ہے۔

صحت کے حکام کے مطابق، بلوچستان میں پولیو کے تیزی سے پھیلاؤ کی بڑی وجہ والدین کی جانب سے ویکسین کے بارے میں غلط فہمی اور ویکسین پلانے کے عمل میں انکار ہے، اس کے علاوہ کچھ علاقوں میں پولیو ورکرز کے ساتھ بے ضابطگیاں بھی رپورٹ ہو رہی ہیں، جہاں بچوں کو قطرے پلائے بغیر ان کے انگلیوں پر قطرے پلانے کے نشانات لگائے جا رہے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، جعلی انگلیوں کے نشانات پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جعلی نشان زدگی کے واقعات سامنے آ چکے ہیں، جس کے نتیجے میں ویکسینیشن کی رپورٹنگ اور اس کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی ترجمان مریم یونس کے مطابق، اس سال پاکستان میں 49 پولیو کیس رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 24 بلوچستان سے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جعلی انگلین کے نشانات نے ویکسینیشن کے عمل کو نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ یہ اصل شرح کو چھپانے کا سبب بن رہے ہیں۔

بلوچستان کے نیشنل اسٹاپ ٹرانسمیشن آف پولیو (این اسٹاپ) کے صوبائی ٹیم لیڈر ڈاکٹر آفتاب کاکڑ نے کہا، جعلی انگلین کی نشان زدگی، کم ویکسینیشن مہمات اور کمزور بچے ان کیسز کے تیز پھیلاؤ کے بنیادی عوامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم 1994 میں شروع ہوئی تھی، اور اس کے بعد پولیو کے کیسز میں کمی آئی ہے، 2018 میں پولیو کے صرف 8 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، تاہم اس سال کیسز کی تعداد دوبارہ بڑھ گئی ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے پولیو کے خاتمے کی مہم کی مؤثریت کو بڑھانے کے لیے خصوصی طور پر ان بچوں پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو آپریشنل مسائل، ویکسین کی ہچکچاہٹ، سیکیورٹی کی مشکلات اور بائیکاٹ کی وجہ سے مسلسل نظر انداز ہو رہے ہیں۔