چین پاکستان میں اپنے شہریوں پر ہونے والے حملوں کے بعد اپنی سیکیورٹی بڑھانے پر اصرار کر رہا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں بلوچ لبریشن آرمی کے چینی شہریوں پر حملے کے بعد چین اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان میں اپنے سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔
گزشتہ ماہ جنوبی بندرگاہی شہر کراچی میں ایئرپورٹ پر بم دھماکے میں دو چینی انجینئرز ہلاک ہو گئے تھے، جو تعطیلات کے بعد تھائی لینڈ سے پاکستان واپس آ رہے تھے۔ یہ واقعہ چین کے مفادات پر پاکستان میں ہونے والے متعدد حملوں میں تازہ ترین تھا۔
بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے چین کو ہدف بنانا
چین بلوچستان میں اپنے مفادات اور سی پیک منصوبے سے وابستہ چینی شہریوں کو بلوچ آزادی پسندوں کے شدید حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی نے چین کے مفادات اور سی پیک منصوبے سے جڑے چینی شہریوں پر کئی مہلک حملے کیے ہیں۔
ان حملوں میں چینی شہریوں کو ہدف بنایا گیا ہے جو بلوچستان میں موجودہ چینی منصوبوں اور اقتصادی مفادات سے وابستہ ہیں۔
پاکستان پر چین کا دباؤ
رائٹرز کے مطابق یہ حملے اور پاکستان کی ان حملوں کو روکنے میں ناکامی چین کے لیے مایوسی کا سبب بنے ہیں، جس کے بعد چین نے پاکستان سے مشترکہ سیکیورٹی نظام پر باضابطہ مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستانی حکومت کو چین کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ بلوچ آزادی پسندوں کی کامیاب کارروائیوں نے چین کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کی جانب سے بلوچستان اور گوادر میں جاری متعدد منصوبوں کی رفتار سست پڑ گئی ہے، اور کئی منصوبوں کو معطل یا روک دیا گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق متعدد پاکستانی سیکیورٹی اور حکومتی ذرائع نے جو چین اور پاکستانی حکام کے جاری مذاکرات اور مطالبات سے بخوبی آگاہ ہیں، رائٹرز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ مذاکرات حساس نوعیت کے ہیں۔
ایک ذرائع نے کہا، “چین اپنے سیکیورٹی اہلکاروں کو پاکستان بھیجنا چاہتا ہے،” اور مزید کہا کہ پاکستان نے ابھی تک اس قدم پر اتفاق نہیں کیا اور یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ چین اپنے سیکیورٹی عملے میں سرکاری یا نجی اہلکار بھیجنا چاہتا ہے۔
تاہم چین اور پاکستان نے سرکاری سطح پر اس حوالے سے جاری بات چیت کی تصدیق نہیں کی۔
ذرائع اور دیگر حکام نے بتایا کہ دونوں ممالک میں مشترکہ سیکیورٹی نظام کے قیام پر اتفاق پایا گیا ہے، اور پاکستان نے چینی حکام کو سیکیورٹی اجلاسوں میں شرکت اور ہم آہنگی کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم، دونوں فریقوں میں سیکیورٹی انتظامات میں براہ راست شرکت کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
پاکستانی حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے چین سے اپنی انٹیلی جنس اور نگرانی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے مدد طلب کی ہے، نہ کہ براہ راست شرکت کے لیے۔
چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ انہیں مشترکہ سیکیورٹی اسکیم پر بات چیت کے بارے میں علم نہیں ہے، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا، “چین پاکستان کے ساتھ تعاون کو مستحکم کرتا رہے گا اور چینی عملے، منصوبوں اور اداروں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کرے گا۔”
رائٹرز کے مطابق پاکستان کی فوج کے میڈیا ونگ، آئی ایس پی آر نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا جبکہ پاکستانی وزارت داخلہ اور منصوبہ بندی نے بار بار کی درخواستوں کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔
پاکستان کی وزارت داخلہ نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ممالک نے مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق کراچی بم دھماکے کی نوعیت نے بیجنگ کو غصہ دلا دیا ہے، اور اب چین اپنے طویل مدتی مطالبے کو مزید شدت سے پیش کر رہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی سیکیورٹی انتظامات پر کنٹرول حاصل کرے۔
ذرائع: رائٹرز