حکومت کو ایسی جنگ کا سامنا ہے جس میں انٹیلیجنس معلومات کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔
بی بی سی کو انٹرویو میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں اور سیکیورٹی چیلنجز کے حوالے سے کہا ہے کہ صوبائی حکومت بلوچ لبریشن آرمی کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں شدت پسندی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور حکومت ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں حالیہ سیکیورٹی صورتحال کو انتہائی پیچیدہ قرار دیا، جس میں عام شہریوں اور دشمن عناصر میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
حالیہ حملے اور سیکیورٹی فورسز کے اقدامات
وزیراعلیٰ نے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حالیہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس خودکش حملے کی تحقیقات جاری ہیں، اور جلد ہی اس کے ذمہ داروں کو گرفتار کیا جائے گا۔
سرفراز بگٹی کے مطابق، صوبے میں جاری شورش کے پیچھے کچھ بیرونی عناصر ہیں، جن میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ شامل ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی اندرونی مشکلات اور غیر یقینی حالات کی وجہ سے یہ خطہ بیرونی مداخلت کا شکار ہوچکا ہے۔
انٹیلیجنس کی بنیاد پر اقدامات اور بیرونی مداخلت کا الزام
سرفراز بگٹی نے بلوچستان میں جاری شورش کو ’انٹیلیجنس بیسڈ‘ جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ایسی جنگ کا سامنا ہے جس میں انٹیلیجنس معلومات کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت انٹیلیجنس کے استعمال سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور بلوچستان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔
واضح رہے کہ بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے حالیہ کامیاب اور مہلک حملوں کے پیچھے اپنے انٹیجنس ونگ زراب جس کی تشکیل کراچی حملے کے دؤران کی گئی تھی کو قرار دیا ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی کے مطابق زراب بی ایل کا منظم و مربوط انٹیلی جنس ونگ ہے، جو پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک سینکڑوں، ریسرچرز، انفارمرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، ڈیٹا انالسٹ اور تفتیش کاروں پر مشتمل ہے۔
زراب کے خفیہ سیل بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قائم کرلیئے گئے ہیں۔ بی ایل اے کے یہ خاموش سپاہی دشمن کے تمام اداروں کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ سالوں پر محیط زراب کی خاموشی کے ساتھ شبینہ روز محنت نے اسے اس قابل بنایا کہ کل کے حملے جیسے مہلک حملے ممکن ہوسکیں۔
وزیراعلیٰ نے واضح طور پر الزام عائد کیا کہ بھارتی ایجنسی ’را‘ بلوچستان میں شدت پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کر رہی ہے، جس سے بلوچستان کے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔
سرفراز بگٹی نے کہا بلوچستان میں جاری سی پیک منصوبے بھی شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں، جن پر کام کرنے والے چینی کارکنان کو خصوصی سیکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔
سرفراز بگٹی نے بتایا کہ اس وقت سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے تقریباً 500 چینی شہری بلوچستان میں موجود ہیں، جن کی حفاظت کے لیے تین ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ ان کارکنان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ان کے لیے بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیوں کا انتظام کیا گیا ہے اور سیکیورٹی پلانز کا باقاعدہ جائزہ لیا جاتا ہے۔
وزیراعلیٰ بگٹی نے موجودہ حکمت عملی پر نظرثانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے مختلف پالیسیوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم بلیک بورڈ پر واپس جا رہے ہیں تاکہ یہ طے کر سکیں کہ کون سی حکمت عملی کارآمد ہے اور کون سی نہیں۔