بلوچستان کے ضلع آواران سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے دلجان بلوچ کے اہلخانہ کی جانب سے آج آواران پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا گیا کہ آج ہم آپ کے سامنے ایک بار پھر بے بسی اور دکھ کی داستان لے کر آئے ہیں۔ ہم نے کئی مرتبہ اپنی آواز کو سرکاری اداروں تک پہنچانے کی کوشش کی، مگر ہمارا درد نہ صرف سنا گیا بلکہ ہمیں جھوٹی تسلیوں سے بہلایا گیا۔ میرے بھائی دلجان ولد اللہ بخش، جو کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے، انہیں ہمارے علاقے تیرتیج آواران سے پاکستانی فوج نے 12 جون 2024 کو زبردستی اُٹھایا اور تب سے ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ آج چھ ماہ گزر چکے ہیں، اور ہمارے دل کی بے چینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا علاقہ، آواران، جہاں ایک طرف لوگ غربت اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں، وہیں دوسری طرف انہیں ریاستی اداروں کی جانب سے جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا بھی ہے۔ آواران میں روزانہ کی بنیاد پر نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کر دیا جاتا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیارے، ہمارے بھائی، بیٹے اور دوست لاپتہ ہو جاتے ہیں اور ان کی ماؤں، بہنوں اور بچوں کی چیخیں سسکیاں بن کر رہ جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب 12 جون کی رات کو فوج کی 4 گاڑیاں ہمارے گھر پر آئیں اور ہمارے بھائی دلجان کو زبردستی لے کر گئیں، تو ہم نے فوراً یہ مسئلہ ضلعی افسران اور سرکاری حکام کے سامنے رکھا۔ مگر ہر بار ہمیں تسلی دی گئی کہ “آج” یا “کل” دلجان کو رہا کر دیا جائے گا، مگر حقیقت میں ہمیں طفل تسلیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ دلجان کی گمشدگی نے ہمارے خاندان کو صدمے اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دلجان کی بازیابی کے لیے پر امن احتجاج کیا اور 3 سے 6 اکتوبر تک ڈپٹی کمشنر آواران کے دفتر کے سامنے تین دن کا دھرنا دیا۔ ہماری ریلی میں علاقے کے دیگر مظلوم لوگ بھی شامل ہوئے جو اسی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس احتجاج کے دوران ضلعی افسران اسٹنٹ کمشنر مجیب الرحمن، ضلعی پولیس آفیسر خلیل احمد بگٹی، اور میر اورنگزیب بزنجو نے ہم سے ملاقات کی اور تحریری معاہدہ کیا کہ دس دن کے اندر دلجان کو رہا کر دیا جائے گا۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ اگر یہ وعدہ پورا نہ کیا گیا تو ہم اپنا دھرنا دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ایک مہینہ گزر چکا ہے ضلعی انتظامیہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمارے لئے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ ہم نے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے، مگر حکومتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ ہمارے دکھ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔
انہوں نے کہا کہ 18 نومبر کو آواران شہر میں ریلی نکالیں گے۔ دلجان کی بازیابی کے لیے آخری حد تک جانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ دلجان کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے یا اگر اس پر کوئی الزام ہے تو اسے قانونی طور پر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ہم اپنے پیارے کو انصاف دلوا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہماری ایک آخری امید ہے کہ شاید آپ کی آواز اور طاقتور قلم ہمارے پیارے دلجان کو بازیاب کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ ہم آپکی توسط سے انسانی حقوق کے اداروں، اعلی حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دلجان کی بازیابی کے لئے کردار ادا کریں۔اور سب سے درخواست کرتے ہیں کہ اس احتجاجی پروگرام میں شرکت کریں اور ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ ہم آپ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اپنے پیشہ ورانہ کردار کو ادا کرتے ہوئے ہماری آواز کو اعلی حکام تک پہنچائیں، تاکہ ہمیں انصاف مل سکے اور دلجان سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔