سرکاری حکام کے مطابق بلوچستان میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا گیا ہے ۔
جمعہ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے ڈی آئی جی اعتزاز احمد گورایہ نے دعویٰ کیا کہ اگست کے حملوں کی تحقیقات کے سلسلے میں ہفتے کے آخر میں ایک آپریشن میں دو عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا اور تین ہلاک ہوئے۔
دعوے کے مطابق دو گرفتار عسکریت پسندوں نے دیگر لیڈز کے علاوہ، معلومات فراہم کی تھیں کہ حملوں کی منصوبہ بندی اور انجام کیسے دی گئی، فنڈنگ کہاں سے آئی، باغیوں کے مقامی سہولت کار کون تھے اور بلوچستان کے پہاڑوں میں ان کے ٹھکانے کہاں واقع تھے۔
سی ٹی ڈی اہلکار کا کہنا تھا کہ اب جیسا کہ میں آپ سے بات کر رہا ہوں، معلومات کی بنیاد پر دکی، لورالائی اور گردونواح کے اضلاع میں گزشتہ دو روز سے آپریشن شروع کیا گیا ہے جس میں فرنٹیئر کور، سی ٹی ڈی، لیویز، پولیس اور دیگر حصہ لے رہے ہیں۔
تاہم آج حکومتی دعوے کے علاوہ گذشتہ دنوں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ موسیٰ خیل کے مقام پر ایک مقابلے میں چار افراد مارے گئے ہیں۔
سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے تین افراد کی شناخت محمد نواز بزدار، غلام بزدار اور جعفر مری کے ناموں سے ہوئی ہے جو پہلے سے جبری طور لاپتہ کیے تھے۔
جعلی مقابلے میں قتل ہونے والوں ہونے والے محمد نواز بزدار، جو راڑہ شم کے علاقے برگ پشت کے رہائشی ہیں، کو 10 ستمبر کو لورالائی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
غلام بزدار کو 21 ستمبر کو راڑہ شم کے علاقے سے بزدار پٹرول پمپ سے جبری لاپتہ کیاگیا جبکہ جعفر مری کو راڑہ شم کے ایک دکان سے سودا سلف لیتے ہوئے 2 اکتوبر کو جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی فوجی آپریشنوں میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد قتل کیئے گئے ہیں۔