بلوچستان حکومت نے پریس کانفرنس میں جبری لاپتہ شخص کو بی ایل اے کا کمانڈر ظاہر کر دیا

288

بلوچستان حکومت کے نمائندوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران فورسز کی تحویل میں پہلے سے موجود طلعت عزیز ولد عبد العزیز کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا سرنڈر شدہ کمانڈر ظاہر کردیا۔

جمعہ کے روز کوئٹہ پریس کلب میں ہونے والے اس پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر عبد الرحمان کھیتران، بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند اور آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے شرکت کی اور صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیئے۔

میڈیا ریکارڈز کے مطابق کوئٹہ کے رہائشی طلعت عزیز، جو شیخان کالج کے پروفیسر عبد العزیز شاہوانی کے بیٹے ہیں، 25 اگست 2024 کو سریاب روڈ، کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کر دیئے گئے تھے۔

ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق طلعت عزیز کو 28 اگست 2024 کو موسیٰ خیل کے علاقے کنگری کے قریب کنگری لیویز اہلکاروں اور تفتیشی آفیسر عصمت اللہ کے حوالے کیا گیا، اور 29 اگست کو انہیں کوئٹہ تھانے منتقل کر دیا گیا۔

تین ماہ تک کوئٹہ تھانے میں قید رہنے کے بعد آج حکام نے انہیں بی ایل اے کا کمانڈر کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے پریس کانفرنس کروایا۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں جبری لاپتہ پہلے سے زیر حراست افراد کو مختلف تنظیموں کے ارکان کے طور پر پیش کرنے کے حوالے سے یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد بار اسی طریقہ کار کو اپنانے کے بعد جبری لاپتہ افراد پر الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔

بلوچستان میں حکومت اور فورسز اداروں کی جانب سے ایسے اقدامات کو بلوچ طلبہ تنظیموں اور دیگر پرامن احتجاجی مظاہروں کو دبانے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مزید برآں گذشتہ برسوں میں اس طرح کی پریس کانفرنسوں کے بعد جعلی مقابلوں میں افراد کی ہلاکتیں بھی سامنے آئی ہیں جہاں سال 2015 میں وزیر اعلیٰ بلوچستان اور اس وقت کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے خضدار سے تعلق رکھنے والے شفقت رودینی اور قلات کے رہائشی ابراہیم نیچاری کے ساتھ پریس کانفرنس کی تھی، جس میں انہیں بی ایل اے کا رکن ظاہر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں دونوں افراد پولیس کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ گذشتہ سال پیش آیا، جب کوئٹہ سے ماہل بلوچ کو خودکش بمبار کے طور پر پیش کیا گیا، تاہم بعد میں عدالت نے انہیں بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کر دیا۔

ان واقعات کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے اداروں نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ان واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور انہیں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔