جنگ کی کوکھ سے جنما سپاہی، سفرخان ۔ ثناء ثانی

380

جنگ کی کوکھ سے جنما سپاہی، سفرخان

تحریر: ثناء ثانی 

دی بلوچستان پوسٹ

شہید سفر خان بلوچ کی کہانی اس زمین کی گود میں پروان چڑھی جس کی رگوں میں آزادی کی تڑپ اور حریت کی لہر ہمیشہ سے موجزن رہی ہے۔ بلوچستان کی سرزمین، جس کی تاریخ کا ہر پتھر، ہر پہاڑ اور ہر وادی اپنے سینے میں بغاوت کے قصے اور قربانیوں کی داستانیں سموئے ہوئے ہے، وہی زمین سفر خان جیسے نوجوانوں کی جنونیت اور شجاعت کی گواہ بھی ہے۔ سفر خان کی جدوجہد اپنے خوابوں اور امنگوں کو بلوچ سرزمیں کے نام کرنے کی کہانی ہے۔ جس نے ان کی زندگی کو ایک مقصد سے جوڑا اور اُس نے آخری سانس تک اس مقصد کی راہ پر چلنے کا عہد کیا۔

سفر خان جیسے نوجوان آج ہر اُس دل میں بسے ہوئے ہیں جو اپنی مٹی سے بے لوث محبت کرتے ہیں، جو آزادی کے لیے مر مٹنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ ایک انجینئر تھا، تعلیم یافتہ، مگر اُس کا جنگجوانہ دل تھا۔ اُس کے پاس علم کا خزانہ بھی تھا اور عقل و حکمت کا چراغ بھی، مگر اس کا دل آزادی کے شعلوں میں سلگتا تھا۔ اپنے ساتھیوں کے درمیان اپنے کاموں کی وجہ سے وہ ایک سنجیدہ شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا، مگر وطن کی آزادی کی جستجو اس کی آنکھوں میں ایک چمک اور اس کی آواز میں ایک عزم پیدا ہو جاتا۔

سفر خان نے اپنے عزم و ہمت سے نہ صرف میدان جنگ میں دشمن کو للکارا بلکہ تنظیم کی بقاء اور استحکام کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا ہے۔ اس کی سوچ جدید خطوط پر استوار تھی، وہ باریک بینی سے سوچ کر منصوبہ بناتا تھا اور اس کی حکمت عملیوں میں پختگی تھی۔ اُس نے نہ صرف تنظیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ ہر محاذ پر اپنی جدوجہد کی گونج دنیا تک پہنچانے کا ہمت بھی رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جنگ اب صرف بندوق کی گولی تک محدود نہیں رہی بلکہ آج کے دور میں میڈیا اور پیغام رسانی بھی اہم محاذ ہیں۔ اسی لیے اُس نے ہر موقع پر جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی مہارت کو سیکھنے اور سکھانے کو ترجیح دی۔ وہ کہتا تھا، ’’یہ پرانی کہانیاں ہیں، ہمیں نئے محاذ سنبھالنے ہیں اور ہمیں نئے راستے اختیار کرنے ہیں۔‘‘

سفر خان کی زندگی کا ہر لمحہ نوجوانوں کے لیے ایک پیغام، ایک سبق اور ایک تحریک ہے۔ وہ خود کو کبھی بھی کسی فرد کے طور پر نہیں دیکھتا تھا بلکہ خود کو اپنی قوم کی تحریک کا ایک حصہ سمجھتا تھا۔ اُس کے نزدیک اس کی اپنی زندگی کی کوئی اہمیت نہ تھی؛ اہمیت تھی تو اُس تحریک کی، اُس مقصد کی جس کے لیے اُس نے اپنی جوانی کا ہر لمحہ وقف کر دیا تھا۔ اُس نے اپنی جدوجہد کو ایک جنگجو کی طرح نہیں بلکہ ایک فکری رہنما کی طرح آگے بڑھایا، جو اپنے خیالات اور حکمت عملیوں سے اپنے ساتھیوں کو ایک نئے راستے پر لے کر چل رہا تھا۔

چار نومبر دو ہزار چوبیس کے دن بلوچستان کے عام عوام، نوجوان اپنی ذاتی زندگی کے کاموں میں مصروف تھے، وہیں نوشکی کے جنگی محاذ پر شہید سفر خان بلوچ اپنی جان کی بازی لگا کر دشمن کو ایک پیغام دے رہا تھا کہ بلوچ سرزمین کبھی بھی غلام نہیں رہے گی، اور نہ ہی اُس کے باسیوں کی روح کو کوئی زنجیر جکڑ سکتی ہے۔ نوشکی کی وادی میں اُس روز ایک ایسی جنگ لڑی گئی جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بنے گی۔ سفر خان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، اُس کی سانسیں ڈگمگا رہی تھیں، مگر اُس کے عزم اور حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ آخری لمحے تک ایک فولادی دیوار بن کر دشمن کے سامنے کھڑا رہا، تاکہ اُس کے ساتھی محفوظ رہ سکیں اور دشمن کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔

زخمی اور نڈھال ہونے کے باوجود سفر خان نے ہار نہیں مانی۔ اُس کی آنکھوں میں عزم کی چمک باقی تھی، اُس کا دل بغاوت کی آگ میں دہک رہا تھا۔ وہ زمین پر گرا، مگر اُس کے ہاتھ سے اُس کا ہتھیار نہ چھوٹا۔ اُس نے آخری سانس تک دشمن کو یہ باور کرایا کہ بلوچ مرتے رہیں گے مگر جھکیں گے نہیں۔

شہید سفر خان کی شہادت بلوچستان کے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونکے گی، جب نوجوان سفر خان کے کردار سے واقف ہونگے، ان کے کردار سے ایک نئی تحریک کو جنم لے گی۔ اُس کی زندگی اور جدوجہد اُنہیں یہ سکھاتی ہے کہ آزاد اور خودمختار رہنا ہی اُن کی تقدیر ہے اور اُس کے لیے لڑنا اُن کا فرض ہے۔ اُس کی شخصیت اب محض ایک نام نہیں بلکہ وہ ایک تحریک، ایک سوچ اور ایک مثال ہے۔

اُس کی شہادت نوجوانوں کو یہ یاد دلاتی ہے کہ غلامی اور جبر کے خلاف آواز اٹھانا نہ صرف ایک حق ہے بلکہ یہ ایک فرض بھی ہے۔ بلوچ نوجوان سفر خان کو اپنی تحریک کا پیشوا کے طور پر دیکھے اور اُس کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کرے۔

سفر خان کی زندگی کے مختلف پہلو بلوچ نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس کی کہانی انہیں یہ سکھاتی ہے کہ آزادی کا خواب ہوا کرنے کے لئے صرف دیکھنے کی نہیں بلکہ اس کے لیے اپنی زندگی کو وقف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے خواب، اس کے خیالات اور اس کی قربانی اُن کے لیے ایک سبق ہیں کہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے عزم اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُس نے اپنی زندگی کو ایک مشن میں ڈھال لیا اور اپنی قوم کو یہ پیغام دیا کہ اگر اُن کے دل میں آزادی کی تڑپ ہے تو انہیں اُس کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

بلوچستان کی تاریخ میں شہید سفر خان کی کہانی ہمیشہ ایک مثال کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ یہ کہانی نہ صرف ایک فرد کی داستان ہے بلکہ یہ اُس قوم کی عکاسی ہے جو اپنی زمین، اپنی عزت اور اپنے حقوق کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ سفر خان کا نام اُس قربانی کی علامت ہے جو بلوچ قوم نے اپنے حقوق کے لیے دی ہے۔ اُس کی شہادت ایک روشن چراغ کی مانند ہے جو بلوچ نوجوانوں کے لیے ہمیشہ ایک رہنما کا کردار ادا کرے گی۔

آج بلوچ نوجوان جب اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں تو اُنہیں سفر خان کی کہانی میں اپنی راہ ملے گی۔ یہ کہانی اُن کے دلوں میں عزم اور حوصلہ بھر دے گا، اُنہیں یہ باور کرائے گی کہ وہ ایک عظیم قوم کا حصہ ہیں جس نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ سفر خان کی کہانی اُنہیں یہ یقین دلاتی رہے گی کہ وہ تنہا نہیں ہیں، اُن کے قدموں کے نیچے اُن کے اسلاف کی قربانیوں کی مضبوط زمین ہے اور اُن کے سروں پر بلوچ ماؤں کی دعاؤں کا سایہ ہے۔

سفر خان کی داستان جدوجہد اُن لوگوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو اپنی زمین کے لیے قربان ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ سفر خان کی زندگی، اُس کا عزم اور اُس کی شہادت اُن لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جو اپنے حقوق اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اُس کی قربانی نے یہ ثابت کیا کہ ایک انسان مر سکتا ہے، مگر اُس کے خیالات، اُس کے خواب اور اُس کی جدوجہد ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ بلوچ قوم کے دلوں میں سفر خان ہمیشہ زندہ رہے گا، اُس کی قربانی ہمیشہ اُن کے لیے ایک مقدس فرض کی حیثیت رکھے گی، اور اُس کی کہانی بلوچ تاریخ کا وہ باب رہے گی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

شہید سفر خان بلوچ کی یاد آج بھی اُن پہاڑوں کی گونج میں سنائی دیتی ہے، اُس زمین کی خوشبو میں محسوس ہوتی ہے، اور بلوچ نوجوانوں کی آنکھوں میں چمکتی ہے۔ وہ ایک خواب تھا جو حقیقت بن گیا، وہ ایک عہد تھا جو امر ہوگیا، اور وہ ایک چراغ تھا جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوگی۔ اُس کی قربانی نے بلوچ قوم کو ایک نئی راہ دکھائی، ایک نئی امید بخشی اور ایک نیا عزم دیا۔

شہید سفر خان بلوچ کی داستان ہمیشہ بلوچستان کے نوجوانوں کو یاد دلائے گی کہ اُن کے پاس بھی وہی عزم و حوصلہ موجود ہے جس نے اُن کے آباؤ اجداد کو ایک مظلوم قوم سے ایک آزاد قوم میں تبدیل کیا۔

یہ داستان اُس پیغام کا حصہ ہے جو بلوچستان کے نوجوانوں کو یاد دلاتا ہے کہ آزادی کی راہ میں رکاوٹیں آئے، اُسے اپنے عزم و استقلال سے شکست دی جا سکتی ہے۔ بلوچستان کی سرزمین پر رہنے والے ہر نوجوان کو سفر خان کی کہانی میں خود کو سمو کر دیکھانا ہے۔ یہ کہانی انہیں سکھائے گی کہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں ڈھال سکتے ہیں، وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ سکتے ہیں، اور وہ اپنی زمین کے لیے کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کریں گے۔

بلوچستان کی تاریخ میں شہید سفر خان کا نام ہمیشہ ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ کہانی اُن لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے جو آزادی کے متوالے ہیں، جو ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اور جو اپنے حقوق کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔ شہید سفر خان بلوچ کا خون، اُس کا عزم اور اُس کی محبت بلوچ قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ وہ ایک خواب کی تعبیر ہے، وہ ایک عہد کا نشان ہے اور وہ ایک مشعل ہے جو بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔

خاکِ بلوچ کے سربازوں کی کہانی ہے کہانی

محبتوں کی داستاں، دل کی زبانی ہے کہانی

یہ سرزمین کی خاک کو سینچا ہے خون دل سے

یہ ان دلیر سربازوں کی نشانی ہے کہانی

کبھی جو سنگلاخوں میں اترے تو بُلند ہوئے

کبھی جو خاک پہ مرے تو بانی ہے کہانی

ہوا کے ساتھ وہ خوشبو وفا کی لے کے آئے

یہ باغ و گل کے رنگوں کی جوانی ہے کہانی

بسا کے خواب میں دیکھا ہے اک جہانِ تازہ

جہاں پہ ہو امن و سکون، وہ بانی ہے کہانی

جو خاک کی محبت میں وار دے گئے سب کچھ

بلوچ مزاحمت و جرات کی نشانی ہے کہانی


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں