بلوچستان سے جبری گمشدگیوں خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5629 دن مکمل ہوگئے ہیں، مستونگ سے بلوچ کونسل کے سابقہ صدر خلیل بلوچ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر پارٹی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ دھرتی اور بلوچ قوم کے دکھ درد اور صورت حال کو دیکھ کر شاید کوئی سنگدل انسان اپنے آنسو روک پائے لیکن یہ بلوچ قوم ہے جو دکھ سہنے کے باوجود برداشت لیئے جارہی ہے اور اس برداشت کی آڑ میں کچھ لوگ ظلم کو برداشت کرنا بلوچوں کی مجبوری ہے، کیونکہ غلام قوم اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتا ہے تاہم بے بس اور غلام بلوچوں نے جرمہ کو اپنا کر دنیا کو یہ پیغام روز اول سے دے دیا کہ ہم غلامی کے طوق کو اپنی گردن سے نکالنے کے لیے ہر وقت پُر امن جد جہد کرتے رہیں گے اور جب بھی بہتر پوزیشن میں آئیں گے تو پھر دنیا کو دکھا کر ائیں گے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اس جدوجہد نے نہ صرف بلوچ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا بلکہ بلوچوں کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنا کر ایک روشن تاریخ رقم کی ہے دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں بھی قوتی چلیں ان کی کامیابی عوام کی شرکت سے ہی ممکن ہوئی بلوچ جدوجہد کو منزل تک لے جانے اور قومی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بھی عوامی حمایت اور تائید ضروری ہے، اور بلوچ عوام کو آگاہی دینا بلوچ سیاسی قوتوں کا فرض ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچ فرزندوں کی بیش بہا قربانیوں کی وجہ سے بلوچ مسلہ بین الاقوامی سطح پر متعارف ہوا ہے، دنیا اب جان چکی ہے کہ پاکستان اور بلوچ کا رشتہ کیا ہے جس سے اب قبضہ گیر نے تشویش کا اظہار کیا ہے وہ اسے پاکستان کا اندونی مسئلہ قرار دیتا ہے اور شروع دن سے یہی پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ چند ناراض بلوچ ہیں ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ایک جانب بلوچ کا قتل عام بلوچوں کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں اور دوسری جانب مذاکرات اور ہتھیار پھینکنے اور غلامی قبول کرنے کا درس دے رہے ہیں۔