قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی حملے میں ملوث ایک خاتون کو تلاش کر رہے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گذشتہ ماہ 6 اکتوبر کو پاکستان کے سب سے بڑے ایئرپورٹ، جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینئروں اور سرمایہ کاروں پر ہونے والے حملے میں مبینہ طور پر سہولت کاری کرنے والی خاتون کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔
حکام کے مطابق کراچی کے مختلف مقامات سے ملنے والی کیمرہ فوٹیج کی مدد سے حملے میں سہولت فراہم کرنے والی خاتون کی شناخت کرلی گئی ہے، اور اس کی گرفتاری کے لیے کراچی میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ کراچی ایئرپورٹ پر خودکش حملہ کرنے والے شاہ فہد اور اس خاتون کو فیملی کے طور پر کراچی میں داخل کیا گیا، اور اسی گاڑی کو حملے میں استعمال کیا گیا۔
حکام نے تاحال خاتون کی شناخت کے حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 6 اکتوبر کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب سگنل پر چینی انجینئرز اور سرمایہ کاروں کے قافلے کے قریب ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چینی شہریوں سمیت کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان کی آزادی کے لیے متحرک تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی۔
بی ایل اے کے مطابق مجید برگیڈ کے فدائی شاہ فہد عرف آفتاب نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے اس قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں پانچ سے زائد چینی انجینئر اور سرمایہ کار ہلاک اور بارہ سے زائد زخمی ہوئے، جبکہ ان کی حفاظت پر مامور کم از کم پندرہ پاکستانی فوجی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، جن میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے چار سے زائد اعلیٰ سطحی افسران شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ سی ٹی ڈی نے کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی وفد کے قافلے پر خودکش حملے کی رپورٹ درج کرتے ہوئے بلوچ لبریشن آرمی کے رہنما بشیر زیب سمیت دیگر قیادت کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔