کنفرٹ زون کا مذبح خانہ اور تحریک
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
انسان اپنے ذہن میں فہم و ادراک، تخیل و تخلیق، وجدان و تفہیم اور حکمت و دانائی کی طاقت رکھنے کی بدولت “سیاسی و سماجی جانور” کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ افکار کی فراوانی اور خصائص کی موافقت جب کسی عمل کیلئے باہم ہوتے ہیں تو کوئی بھی مسئلہ جوں کا توں حل ہونے کی قوت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ شعور کے افق کو چھونا اور خیالات کے آخری سرحد تک پہنچنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہونے کی وجہ سے انسان سیاست و جنگ کی پیچیدیگیوں اور سماج کی شعوری ہئیت کا ادراک رکھ سکتا ہے اور انفرادی و اجتماعی بالیدگی کی راہوں کو ہموار کر سکتا ہے۔ لیکن ان عوامل کی سرخروئی کا دار و مدار اسی نقطے پر منتج ہے کہ ذہن میں ایک ایسا مذبح خانہ موجود نہ ہو جہاں نئے افکار، تخیلات، تخلیقات اور عمل کو پیمانۂ وقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے خیالات کو ایک ایسے خوف و دباؤ سے زبح کیا جائے، جو کنفرٹ زون کی پیداوار ہیں۔ کیونکہ اسی مذبح خانہ یعنی کنفرٹ زون نے سلطنت، بادشاہت، سیاست، سماج اور مختلف شبعہ جات میں عمل، مشقت اور تبدیلی کے دائروں میں پنپنے والے افکار کو خاموشی کے ساتھ اس حد تک زبح کیا جس سے کامیابی کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئے۔ لیکن بعد از وقت، علمِ نفسیات، فلسفہ اور سوشل سائنس کے دیگر شعبہ جات میں چند ایسے انمول کرداروں نے جنم لی، جنہوں نے اس کی تشخیص کے ساتھ ساتھ معالج کا عمل شروع کیا۔ یہی زبح خانہ کسی نہ کسی شکل میں ہمارے تحریک کے اندر خاموشی کے ساتھ وجود رکھتی ہے، جس کی علمِ نفسیات کے رو سے نشاندہی کے ساتھ ساتھ خاتمے کیلئے اس کے متعلق آگاہ ہونا اور اس کے نقصانات سے دامن بچانا لازمی امر بن چکا ہے۔
کنفرٹ زون میں نمو پانا تخلیق و تفہیم کی موت اور زیست کی حقیقی روح، یعنی خوف کے شکنجے سے عملاً نکلنے سے روگرادانی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نہ صرف انفرادی شعور کی بالیدگی کے راستوں کو مسدود کرتی ہے، بلکہ اجتماعی فکر و ادراک کے سامنے دیوار کھڑی کرتی ہے۔ اس نفسیاتی کفیت کے شکنجے میں پھنسے ہوئے افراد نہ خود کو کسی حتمی منزل کی طرف گامزن ہونے کیلئے متحرک کر سکتے ہیں، نہ ہی اپنے قوم کو جداگانہ تشخص و بقاء کی ضمانت سے بہرہ مند کرتے ہیں۔ چونکہ ہم بہ حیثیتِ ایک غلام قوم، اپنی سرزمین کی آزاد حیثیت کی بحالی کیلئے جنگ جیسی سخت اقدام میں پُرکھٹن و تکلیف دہ مراحل سے گُزر رہے ہیں، ہمارے لیے اجتماع و قوم کی حتمی سرخروئی کے واسطے اس نفسیاتی و ذہنی مرض کی علمِ نفسیات کی رو سے تشخیص و علاج ضروری ہے۔ اس موضوعِ سخن کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے اس کی تشریح و تفسیر اور مفہوم کی تہہ تک پہچنا اور اسے اپنی جنگی حالات کے فریم ورک میں جانچنا لازمی ہے۔
جہاں مختلف ماہرِ نفسیات اور سوشل سائنٹسٹ مختلف نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور انفرادی و گروہی کارکردگی اور عمل کو بہتر کرنے کیلئے تحقیق کا راستہ اپناتے ہیں۔ اُن کے مطابق، کنفرٹ زون کا مفہوم یہ ہے کہ “یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں چیزیں ایک شخص کی ذہنیت سے مشابہت رکھتی ہیں اور جہاں وہ ماحول کے کنٹرول میں رہ کر اُس شخص کو آسانی کا احساس دلاتی ہیں۔ اس میں انزائٹی اور دباؤ انتہائی کم درجے میں وجود رکھتا ہے۔” یعنی یہ وہ پُرسکون جگہ ہے جہاں دباؤ اور کشیدگی کا تکرار ذہن میں موجود حقائق و افکار سے نہیں ہوتا اور چیزوں کو سمجھنے کیلئے زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی۔ اسی لیے، اس نفسیاتی کیفیت سے نکلنے کے عمل کو انزائٹی اور دباؤ کی بہتات سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس کیفیت سے نکلنے میں خوف و خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن خوف جیسا مہلک نفسیاتی مرض از خود سیکھنے اور عملی اقدامات لینے کی راہ میں خطرہ موہ لینے کی طاقت کو مسدود کرتی ہے، جس سے شعور کی بالیدگی اور انفرادی و گروہی کارکردگی تھم جاتی ہے۔ اسی لیے مختلف ماہرینِ نفسیات اور بزنس منیجمنٹ سے منسلک مفکرین نے انفرادی و گروہی کارکردگی کے سامنے حائل اس مسئلے کی تشخیص کچھ یوں کی ہے:
انزائٹی اور کارکردگی کو علمِ نفسیات میں Behavioural approach کی رو سے سمجھنے کیلئے رابرٹ یرکز اور جان ڈاڈسن کا نظریہ ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے جس کا حوالہ کنفرٹ زون کی مد میں ماہرینِ نفسیات دیتے ہیں۔ یہ نظریہ 1907 میں پیش کی گئی جو ایک عملی مشاہدے کے بعد سامنے آئی۔ یعنی انہوں نے چند چوہوں کو جیسے ہی بجلی کے کرنٹ لگائے، تو وہ زیادہ متحرک ہو گئے۔ لیکن جب بجلی کے کرنٹ کی شدت حد سے بڑھ گئی توہ حرکت پذیر ہونے کے بجائے چھپنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس مشاہدے کے بعد اُنہوں نے انسانی ذہن میں موجود کنفرٹ زون کی نفسیاتی کیفیت کا مشاہدہ کرکے یہ نظریہ پیش کیا کہ انزائٹی اور دباؤ کے درمیان ایک ربط موجود ہوتی ہے۔ جب کنفرٹ زون میں موجودہ پُرسکون افکار و خیالات کی نفسیاتی کیفیت سے نکلنے کے عمل میں انزائٹی اور دباؤ بڑھ جاتی ہے تو کارکردگی میں بہتری کی گُنجائش بھی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن ایسا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب عملی اقدامات میں درپیش انزائٹی اور دباؤ، ذہن میں نفسیاتی تسکین کی حد کے برابر ہوتے ہیں۔ یعنی کنفرٹ زون اور پینک زون میں مساوات کا عمل دخل موجود ہوتا ہے۔ اس نکتے کو رابرٹ یرکز نے Optimal Anxiety کا نام دیا ہے جو کنفرٹ زون سے باہر ہوتا ہے۔ اس نقطے کی تشریح ماہرِ نفسیات اور پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر Maike Neuhaus نے اپنی تحقیقی تحریر How to Leave Your Comfort Zone and Enter Your Growth Zone میں یوں کی ہے کہ “ انسانوں میں بھی یہی رویہ پایا جاتا ہے کہ جب وہ اپنے کنفرٹ زون سے نکلتے ہیں، انزائٹی و دباؤ اُن کے دماغ میں موجود Stimuli کو متحرک کرتی ہے۔ یوں انسان، کنفرٹ زون سے نکل کر یا تو درپیش مسئلے کے خلاف لڑتے یعنی مقابلہ کرتے ہیں ہیں، یا پیچھے ہٹ کر ذہنی طور پر منجمد ہوتے ہیں۔ یعنی دونوں صورتوں میں عملاً کاکردگی دکھانا انسانی ذہن پر ہی منحصر ہوتا ہے۔”
کنفرٹ زون کو بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے Standford University کے امریکی محقق ، پروفیسر اور ماہر نفسیات کیرل ڈویک کی تصنیف Mindset: The New Psychology of Success علمِ نفسیات میں ایک پیراڈائم شفٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحقیقی کتاب میں اُنہوں نے دو متضاد ذہنی معیارات یا Mindsets کے درمیان فرق کو وضع کیا ہے، جس سے کنفرٹ زون کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ یہ ذہنی معیار طے شدہ یا مقررہ ذہنیت اور بالیدگی پانے والے یا پختہ ذہنیت ہیں۔ طے شدہ یا مقررہ ذہنیت رکھنے والے لوگ یہ مانتے ہیں کہ اُنہوں نے اس حد کے ساتھ قابلیت کی خوراک(ذہنی طور پر) مقرر کر رکھی ہیں کہ وہ کتنا حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ ناکامی سے ڈرتے ہیں کیونکہ ناکامی نامعقولیت کو ظاہر کرتی ہے اور تنقید خود اعتمادی کیلئے ایک دھکچا بن جاتی ہے۔ اسی لیے وہ اسی ذہنیت تَلے، کنفرٹ زون میں رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ جبکہ پختہ و ترقی یافتہ ذہنیت قابلیت کو مقرر نہیں کرتے اور ناکامیوں کو سیکھنے کے مواقع کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو لامحدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی نقطے کو مزید واضح کرتے ہوئے Maike Neuhaus لکھتی ہیں کہ “ ارادتاً کمفرٹ زون کو ترک کرنا ترقی یافتہ ذہنیت کی طرف منتقل ہونے کے مترادف ہے۔ مقررہ ذہنیت ہمیں ناکامی کے خوف کی جال میں پھنسا دیتی ہے، جبکہ بالیدگی پانے والی یا ترقی یافتہ ذہنیت ہمیں سیکھنے، خطرہ موہ لینے اور امکانات کو وسیع کرنے کیلئے زندگی کے حدود میں مثبت نتائج سے مستفید ہونے کیلئے متاثر کرتی ہے۔”
انفرادی و گروہی کارکردگی میں درپیش نفسیاتی مسائل، خصوصاً افراد کی کنفرٹ زون میں موجود پُرسکون نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کیلئے ایلسڈر وائٹ کی تحقیقی تحریر From Comfort Zone to Performance Management(2009) قابلِ مطالعہ ہے۔ اس تحریر میں وہ گروہی کارکردگی نہ دکھانے یا عملی طور پر غیر متحرک رہنے کے اسباب کو جاننے کیلئے Behavioural اپروچ کو مدنظر رکھ کر ماہرِ نفسیات بروس ٹک مین کی تصنیف Developmental Sequence of Small Groups کا حوالہ دیتے ہیں جو 1965 میں لکھی گئی۔ بُروس نے کنفرٹ زون کی موجودگی میں ٹیم کے ممبران کے درمیان کارکردگی دکھانے اور عملی طور پر متحرک رہنے کے پیچھے پانچ مراحل پیش کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ Forming کہلاتا ہے جس میں علم و ہنر کی عدم موجودگی اور ٹیم یا گروہ کے بجائے خود پر زیادہ توجہ(زاتی بڑھائی) دینے کی وجہ سے کام کرنے کی رضامندی موجود نہیں ہوتی۔ دوسرا مرحلہ Storming ہے جہاں کام کو سرانجام دینے کی خواہش تو ہوتی ہے، لیکن صلاحیتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے کام کرنا ممکن نہیں ہوتا اور خیالات کے سامنے مسائل درپیش ہوتی ہیں۔ تیسرا مرحلہ Norming کہلاتا ہے، جہاں نئی صلاحیتوں کیلئے درکار خود اعتمادی کی وجہ سے رضامندی کا عمل ایک بار پھر رُک جاتا ہے۔ اس میں توجہ کام کے طریقہ کار، اصول اور مراحل پر مرکوز ہوتا ہے۔ چوتھا مرحلہ Performing کہلاتا ہے جہاں کام کرنے کی قابلیت اور رضامندی موجود ہوتی ہے۔ اس میں ایک متاثر کن ٹیم کی عملی اقدامات کیے جاتے ہیں اور مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ پانچوں مرحلہ adjourning کہلاتا ہے جس میں ٹیم کام کو مکمل کرکے گروہی عمل کو روک دیتا ہے۔ لیکن اس آخری مرحلے تک تب ہی پہنچا جا سکتا ہے جب ہم کنفرٹ زون سے نکل کر نئے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا مفہوم و نظریات اور مختلف ذہنی و عملی مراحل کو مدنظر رکھ کر اگر ہم بلوچ قومی تحریک پر ایک عالمانہ نظر دوڑائیں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ہم نے مقررہ ذہنیت اور طے شدہ اصول و ضوابط سمیت کنفرٹ زون کو کس حد تک اپنایا ہے۔ گروہی و اجتماعی کارکردگی، انفردی شعور اور ادراک میں ناپختگی کی بنیادی وجوہات اسی نفسیاتی کیفیت کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہم نے نہ صرف کچھ نئے حقائق کے خلاف اسے اپنایا ہے، بلکہ درپیش مسائل میں خطرہ موہ لیکر سیکھنے کا دروازہ بھی بند کیا ہے۔ جب ہم جنگ میں اپنے طے شدہ ذہنیت تَلے تحریک کو آگے لے جانے کی تگ و دو کرتے ہیں، تو کسی بھی نئے اصول کو مداخلت کرنے سے روک دیتے ہیں۔ جب کوئی عمل یا شخص ہماری زاتی مزاج، طبیعت، سوچ و اپروچ اور نفسیاتی کیفیت سے میل نہیں کھاتی، تو ہم اُس کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے سے گُریز کرتے ہیں۔ خواہ جدوجہد کے تقاضات کتنے ہی اہم ہوں، ہم اسی نفسیاتی مرض کے سائے تَلے عملی اقدامات سے اجتناب برتتے ہیں اور تحریک کو فقط اپنے منظورِ نظروں سمیت فارملٹی کی حد تک چلانے کی سعی کرتے ہیں۔ ہم کچھ “بننے” کے بجائے، “ہونے” کی خوش فہمی میں عافیت سمجھتے ہیں جو طے شدہ و منجمد ذہنیت کا ہی عملی عکس ہے۔ لیکن بقولِ کیرل ڈویک، “ بننا، ہونے سے بہتر ہے(لیکن) مقررہ ذہنیت لوگوں کو ہونے کی آسائش سے مستفید ہونے سے دُور رکھتا ہے۔”
بعض اوقات، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک میں عملی طور پر شامل جہدکار اس نفسیاتی کیفیت کے شکار نہیں ہیں۔ یہ کہنا از خود اس کیفیت کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ انسان خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اور خواہ وہ کسی بھی عملی سرگرمی سے منسلک ہو، وہ اس نفسیاتی کیفیت میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ذہنی طور پر وجود رکھتا ہے۔ جب ایک جہدکار، پہاڑوں کو اپنا مسکن بناتا ہے، یا ایک کمانڈر و لیڈر اپنے سپاہیوں کی رہنمائی و قیادت کرتا ہے، وہ بھی اس کیفیت سے پاک نہیں رہ سکتا، بشرطیکہ وہ بالیدہ ذہن نہیں رکھتا۔ یعنی، جب ایک پارٹی، تنظیم یا گروہ کسی مخصوص نقطے تک محدود رہتا ہے اور عملی اقدامات میں بہتر کارکردگی دکھانے کیلئے نئے چیلنجز کے سامنے خوفزدہ ہوتا ہے، تو پھر اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ کنفرٹ زون میں سکونت پذیر ہے۔ یعنی جب کوئی جہدکار، لیڈر یا کمانڈر عملی طور پر ثابت کرنے کے بجائے یہ سوچ کر یا کہہ کر خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ ہم نے ترقی، حکمت، کامیابی اور شعوری پختگی حاصل کی ہے تو وہ طے شدہ ذہنیت ہی کی عکاسی کرتا ہے جو کنفرٹ زون کی تشکیل کردہ کیفیت ہوتی ہے۔ وہ نئے تقاضات میں ڈھلنے، سوالات کا سامنا کرنے، درپیش مسائل کے خلاف خطرہ موہ لینے اور اپنے جامد اصولوں سے نکلنے کی کوشش اس لیے نہیں کرتا، کیونکہ اس سے اگر ناکامی ہوئی، تو نامعقولیت عیاں ہوگی اور بعد از ناکامی ،تنقیدی عمل سے ضمیر کو ٹھیس پہنچے گی۔ یہ وہی طے شدہ یا مقرر کردہ ذہنیت ہے جس کی تشریح کیرل ڈویک نے اپنی تصنیف میں کی ہے۔
ایک بار جب کنفرٹ زون تشکیل دے دی جائے تو پھر نا صرف اسکے خارجی دروازے پر قفل لگادی جاتی ہے، بلکہ داخلی دروازے پر بھی دیوار گریہ کھڑی کرکے راہ، راستہ اور بہاو سبھی مسدود کیئے جاتے ہیں، بمنظور، خدانخوستہ کوئی آنا جانا، کہیں اس سکون سے محروم نا کردے۔ تبھی تو پھر نا کسی کے پَلے پڑتے ہیں اور نا ہی پلے پڑواتے ہیں۔ تحریک کے سبیل کے ادنیٰ و اولیٰ سبھی اس اپاہجی تسکین کا کبھی گریبان چاک کرکے تئیں دیکھنے سے اس قدر کتراتے ہیں کہ اب تو ارادتا یا پھر غیر ارادتا، ادراک کے اوپر بھاری پتھر رکھ کر، سمجھنے و پرکھنے کا حس ہی دبا پھر بھول اور پھر کھو چکے ہیں۔ سوچیں ذرا، کیا کنفرٹ والی روایت اور فتح مبین ایک ساتھ کبھی چل بھی پائیں گے کیا؟
ذہنی ترقی اور شعوری بالیدگی کی عدم موجودگی کی وجہ سے کنفرٹ زون مضبوط و مستحکم رہ کر انفرادی و اجتماعی طور متحرک رہنے اور بہترین کارکردگی دکھانے کی صلاحیت کو مسدود کرتی ہے۔ یہ نفسیاتی کیفیت، حدود تعین کرتی ہے جس میں صرف اُنہی افکار اور عملی اقدامات کو جگہ دی جاتی ہے جس سے ذہنی تسکین کا ساماں ملے۔ اگر طے شدہ اصولوں اور نئے تقاضات کے درمیان تضادات پروان چڑھتے ہیں، تو ذہنی خلفشار و انتشار کا عمل بڑھ جاتا ہے، جس سے نفسیاتی امراض ناقابلِ علاج بن جاتے ہیں۔ اور یہی عمل فیصلہ کن نتائج کے خلاف ایک المیہ بن کر اُبھرتی ہے۔ اسی لیے محدود ذہنیت کے سانچے میں یہ سمجھ کر خوش فہمی میں مبتلا ہونا بے معنی ہے کہ ہم ترقی، کامیابی اور حکمت کو پا چُکے ہیں، کیونکہ بقولِ بینجمن فرلینکلن، “مسلسل بالیدگی و ترقی کے بغیر، بہتری اور کامیابی جیسے الفاظ کوئی معنی نہیں رکھتے۔”
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں