ایسا نہ ہو کہ آنی والی نسلیں بلوچ قوم کے حقیقی مقصد کو فراموش کر بیٹھیں۔
پارٹی کارکنان ، دوزواہ ، بلوچستان کے سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنان کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے ایجنڈے کو سب سے اوپر رکھیں ، کیونکہ ہمارے مسائل کی جڑ بلوچ قوم کی غلامی ہے اور اس سے نکلنے کا راستہ آزادی کے سوا کوئی نہیں۔
ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بی این ایم کے چوتھے مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے اپنے ابتدائی خطاب میں کیا۔
انھوں نے اس پر زور دیتے ہوئے مزید کہا پارٹی کے کارکنان اور دوزواہ بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات ،اور دیگر قوم دوست قوتوں کو سپورٹ ضرور کریں ، اور انھیں متعارف کروائیں جو بلوچ اور بلوچستان کے مفاد میں ہیں، لیکن ہمارے لیے ان سب کی حیثیت ثانوی اور آزادی کی جدوجہد ترجیح ہونی چاہیے۔ بی این ایم کے کارکنان سب سے پہلے اپنے پروگرام سے منسلک رہ کر اس کی ترویج و ابلاغ کے لیے کام کریں۔
چیئرمین نے توجہ دلاتے ہوئے کہا ہمیں ثانوی معاملات اور حقیقی مقصد کے درمیان فرق میں نہیں الجھنا چاہئیے۔ ایسا نہ ہو کہ ثانوی مسائل کو ابھارا جائے اور آنے والی نسل اپنی تحریک کی لوازمات کو فراموش کر بیٹھیں۔ بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والی نمایاں سیاسی جماعتیں ہیں جن میں اندرون اور بیرون وطن بی این ایم سب سے زیادہ متحرک ہے۔اس لیے جو قوتیں بلوچ قومی آزادی کی حمایت کرتی ہیں اور بلوچ قومی تحریک آزادی کو مضبوط دیکھنے کی خواہاں ہیں انھیں بی این ایم کی حمایت اور آزادی کے پروگرام کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
چیئرمین بی این ایم نے پاکستان میں جمہوری طرز سیاست کی ناکامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا پاکستان نے بلوچ راجی مچی کو سبوتاژ کیا ، چار بلوچ شہید ہوئے۔ پی ٹی ایم کے جرگے کو روکنے کی کوشش کی وہاں بھی چار پشتون شہید ہوئے۔ احتجاج اور دھرنوں کے باوجود بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ پنجاب میں درجنوں بلوچ طالب علموں کو بغیر احتساب کے خوف کے جبری لاپتہ کیا گیا اور پاکستان ان آوزاوں کو دبا رہا ہے جو ان مظالم کے خلاف اٹھ رہی ہیں۔
ڈاکٹر نسیم نے حالیہ کچھ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ، پارلیمانی سیاسی جماعتوں پر بھی تنقید کیا ، انھوں نے کہا بی این ایم سے ماضی میں پوچھا جاتا تھا کہ بی این ایم بلوچی زبان کے لیے کیا کر رہی ہے۔ آج بی این ایم نے بلوچی زبان و ادب کی ترقی کے لیے نمایاں کام کیے ہیں۔ مگر وہ دوسری جماعتیں جو پارلیمانی سیاست کرتی ہیں وہ کیا کر رہی ہیں۔ کم از کم وہ کچھ ایسے کام کریں جن کا بلوچ قوم کو فائدہ ہو ۔گوادر میں واجہ سید ظہور شاہ ہاشمی کے مجسمے کو مسخ کیا گیا۔سید ہاشمی بلوچ قومی ادب میں ایسے ہی قدر آور شخصیت ہیں جیسے سیاست میں واجہ خیربخش مری اور شہید اکبر خان بگٹی ہیں۔ لیکن کسی ادبی اور غیرادبی تنظیم نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ اسی طرح پنجگور میں شہید اکبر خان بگٹی کے مجسمے کو گرایا گیا ،ا س کا ردعمل بھی مایوس کن ہے۔ ان معاملات میں ان جماعتوں کا جو اپنے نرم موقف کے ساتھ بلوچستان کی سرفیس سیاست میں موجود ہیں بھرپور ردعمل ہونا چاہیے تھا۔