شہید جلیل؛ آزادی کی راہ میں قربان ہونے والے عظیم ہیرو ۔ دودا بلوچ

342

شہید جلیل؛ آزادی کی راہ میں قربان ہونے والے عظیم ہیرو

تحریر: دودا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ 2022 کا 29 نومبر تھا، رات کے تقریباً 12 بجے کا وقت تھا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے کیمپ میں بیٹھا تھا اور دن بھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ہمارے دو دوست نیٹ ورک گئے تھے۔ وہ خوشی خوشی گئے، لیکن جب واپس آئے تو ان کے چہروں پر گہری اداسی اور غم کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا، کیا ہوا؟ سب خیریت ہے؟ میرے دوست نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ شہید جلیل شیر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کولواہ میں ایک ڈرون حملے کا نشانہ بنے اور شہید ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر میرا دل جیسے رک سا گیا۔ ایک لمحے کے لیے غم اور بے بسی کا احساس غالب آیا، لیکن فوراً ہی میرے اندر ایک نیا حوصلہ اور عزم پیدا ہوا کہ ان کا مشن اب ہمیں آگے لے کر چلنا ہے۔

شہدائے کولواہ سے میرا ایک خاص تعلق رہا ہے۔ ان کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ میرے لیے نہایت قیمتی ہے۔ ہم نے ساتھ مل کر کئی مشکل اور اہم مشن سر انجام دیے۔ ان میں جلیل شیر کا رشتہ مجھ سے بہت گہرا تھا، وہ میرے خاندان کا ممبر تھے۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت انہی کے ساتھ گزارا۔ ہم نے نہ صرف بلوچستان کے دشوار گزار پہاڑوں میں دشمن سے لڑائیاں لڑی بلکہ کئی سخت حالات کا سامنا بھی کیا۔ جلیل شیر نے نہ صرف میرے دل میں اپنے لیے احترام پیدا کیا بلکہ میرے لیے ایک لیڈر اور رہنما کی حیثیت اختیار کر گئے۔ ان کی باتوں میں ہمیشہ ایک عزم ہوتا تھا، ایک جذبہ جو ہمیں حوصلہ دیتا تھا۔ وہ واقعی ایک عظیم ہیرو تھے جنہوں نے بلوچستان کی آزادی کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

جلیل شیر جو بی ایس او آزاد کے رکن تھے، بلوچستان کے مختلف شہروں میں آزادی کی تحریک چلا رہے تھے۔ جب حالات بگڑتے گئے تو انہوں نے سیاست کو چھوڑ کر 2009 میں پہاڑوں کا رخ کیا اور اپنی عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی یہ قربانیوں بھری داستان 2013 میں ایک اور موڑ لے لی جب ان کے بھانجے، شہید سالم رحمت، نے شہادت حاصل کی۔ اس غم نے جلیل شیر کے حوصلے کو مزید تقویت بخشی اور وہ اپنی جدوجہد میں اور بھی مضبوطی سے ڈٹ گئے۔ ان کی زندگی میں آنے والے ہر سانحے اور نقصان نے ان کی ہمت کو اور بڑھا دیا۔ 2016 میں ہمارے گھر پر ایک آپریشن ہوا جس میں شہید عبداللہ شیر اور شہید ولی جان نے جان دی۔ اس کے بعد 2018 میں شکر جان، 2019 میں اکبر جان، 2021 میں شکاری قاسم جان، 2022 کے 4 فروری کو شہید الطاف جان، اور 2022 کے 29 نومبر کو جلیل شیر نے آخرکار اپنی جان قربان کر دی۔ ہر شہادت نے جلیل شیر کے عزم کو اور بھی جلا بخشی، اور انہوں نے اپنے خون سے آزادی کی تحریک کو مزید تقویت دی۔

آزادی کی راہ میں شہادتیں کوئی نئی بات نہیں۔ ہمارے ہزاروں دوست اور خاندان کے کئی افراد اس راہ میں قربان ہو چکے ہیں، مگر ہر قربانی کے ساتھ بلوچستان کی آزادی کا جنون اور جذبہ اور زیادہ پروان چڑھتا ہے۔ یہ شہداء ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی یادیں، ان کے اصول، اور ان کا نظریہ ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو چکے ہیں۔ جسمانی طور پر وہ شاید ہمارے ساتھ نہیں، لیکن ان کے دیے گئے سبق اور مشن ہمیں ہر لمحہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔

ان کی قربانیوں کے عوض ہم ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے، اور ان کی کہانیاں آنے والی نسلوں کو سناتے رہیں گے تاکہ کوئی بھی ان کے عظیم کردار کو بھول نہ سکے۔

میرے لیے یہ باعث فخر ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے سنہرے اور قیمتی لمحات ان عظیم شخصیات کے ساتھ گزارے۔ ان سے مجھے بے شمار سیکھنے کا موقع ملا۔ جنگ آزادی کا یہ سفر پیار اور محبت کا سفر بھی ہے۔ یہی جذبہ ہے جس نے ہمیں لڑنے کی طاقت اور عزم عطا کیا۔ شہداء ہمارے لیے حقیقی ہیروز ہیں، اور ہم ان کے راستے پر آخری دم تک چلتے رہیں گے۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر میرے الفاظ ان عظیم کرداروں کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ میری تحریر ان کے عظیم حوصلے، ان کی قربانیوں، اور ان کے بے مثال عزم کو پوری طرح نہیں سمو سکتی۔ میرے پاس ان عظیم شخصیات کے کردار کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم ہیں۔ ان کے کارنامے اور قربانیاں ایسی ہیں کہ انہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

شہدائے کولواہ اور شہدائے بلوچستان کو میرا دل سے سلام ہے۰

بلوچستان ہمارا ہے، اور ہم اس کے ہیں۔ ان شہداء نے ہمارے لیے راہیں روشن کیں، اور ہم ان کی راہ میں چلتے رہیں گے۔ ان کے مشن کو جاری رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، اور ہم کبھی بھی ان کے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ سرزمین ہماری ہے، اور ہم اپنی آخری سانس تک اس کی حفاظت اور آزادی کے لیے لڑتے رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں