بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری، مختلف علاقوں سے مزید 8 افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
بلوچستان کے ضلع پنجگور سے اطلاعات کے مطابق رواں ماہ 23 اکتوبر کو سرکاری سرپرستی میں چلنے والی مسلح گروہ یعنی ڈیتھ اسکواڈ کے ارکان ارشاد احمد ولد محمد اسماعیل کو اس کے گھر کے قریب دکان سے اغواء کرکے لئے گئے۔
پنجگور سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق 14 اکتوبر سے گوادر کے جانب سفر کرتے ہوئے پاکستانی فورسز نے قلات اور پنجگور کے رہائشی چار افراد کو حراست بعد لاپتہ کردیا تھا جن میں سے تین بعد ازاں بازیاب ہوگئے جبکہ عدنان بلوچ ولد امیر تاحال منظرعام پر نہیں آسکا ہے۔
دوسری جانب ساحلی شہر گوادر کے علاقے پسنی سے 19 اکتوبر کو پاکستانی فورسز نے قدیر احمد ولد لال بخش کو جبری لاپتہ کردیا ہے۔
ادھر ڈیرہ بگٹی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والوں میں مزید پانچ افراد کی شناخت، شاہ مراد ولد تھاپہ بگٹی، مصطفی ولد احمد علی بگٹی، بازید ولد خالق داد، غلام رسول ولد علی خان، خیر اللہ ولد نواب بگٹی کے ناموں سے ہوگئی ہے جنھیں 17 اور 21 اکتوبر کے بیچ ڈیرہ بگٹی کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مطابق گذشتہ ہفتے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ڈیرہ بگٹی سے 25 کے قریب افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، تاہم دی بلوچستان پوسٹ کو تاحال 21 افراد کے نام موصول ہوسکے ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں میں ایک تیز لہر دیکھنے میں آئی ہے جہاں صرف رواں مہینے بلوچستان کے مختلف اضلاع سے 80 کے قریب افراد جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے گئے ہیں جن میں ابتک 78 کی شناخت ہوسکی ہے۔
رواں ماہ دی بلوچستان پوسٹ کو کراچی سے 12 بلوچ طلباء اور نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے اطلاعات موصول ہوئی اور کیچ سے یہ تعداد 10 تھی نوشکی سے 9 افراد جبری گمشدگی کا نشانہ بنے، 7 جبری گمشدگیوں کی اطلاعات گوادر اور 7 کی پنجگور سے ملے ہیں۔
اسی طرح افراد حب چوکی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنے، خضدار سے چار اور خاران، قلات، پسنی سے ایک ایک واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
مزید برآں رواں سال اگست میں خاران سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے دو افراد شہزاد محبوب ملازئی اور خدا رحیم بازیاب ہوگئے ہیں۔