بلوچستان میں جبری گمشدگیاں عروج پر، ایک ہفتے میں کئی لاپتہ – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

275

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں عروج پر، ایک ہفتے میں کئی لاپتہ

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں، پچھلے ایک ہفتے میں بلوچستان کے مختلف شہروں سے متعدد افراد حراست میں لئیے جانے کے بعد لاپتہ کردیے گئے ہیں۔

بلوچستان میں پچھلے دہائی کے اوائل سے شروع ہونے والی جبری گمشدگیاں رُکنے کا نام نہیں لے رہی، بلکہ ان میں شدید اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

پچھلے دہائی کے اوائل میں جسٹس نواز مری کے قتل کے بعد کئی افراد کو پاکستانی اداروں نے حراست میں لیکر جبری گمشدگیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو کہ اب تک تھما نہیں۔ پچھلے 18 سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں غائب کردیے گئے ہیں۔

ان میں سے کئی ہزار افراد کی مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں جن میں ایچ آر ڈبلیو اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی شامل ہیں نے بارہا پاکستانی ریاستی اداروں کو ان گمشدگیوں کا موردِ الزام ٹہرایا ہے۔

اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری اور غیر قانونی گمشدگیوں نے بھی بلوچستان کا 2012 میں دورہ کر کے پاکستانی اداروں کی زیادتیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اگر صرف پچھلے ایک ہفتے کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہمیں بلوچستان کے طول و عرض سے متعدد افراد کی گمشدگیوں کے واقعات دیکھنے کو ملیں گی۔

ان میں سب سے زیادہ مشہور واقعہ بولان میڈیکل کالج کے مین ہاسٹل سے فائنل ایئر کے طالبعلم ڈاکٹر سعید بلوچ کی گمشدگی کا ہے۔

ڈاکٹر سعید کو پانچ مارچ کو کئی دوسرے عینی شاہدین کے سامنے پاکستانی اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔ اس گمشدگی کیخلاف بلوچستان ینگ ڈاکٹرز ایسوسیشن اور دیگر طلبہ تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے۔

دوسری جانب دی بلوچستان پوسٹ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق صرف نوشکی شہر سے پچھلے کچھ دنوں کے دوران نصف درجن سے زائد نوجوان اغوا ہوئے ہیں۔

ان میں سے دو نوجوان بلوچستان نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جہانزیب جمالدینی کےبھتیجے بتائے جاتے ہیں۔ انکے تیسرے بھتیجے کو کوئٹہ سے غائب کردیا گیا ہے۔

بی این پی مینگل کے مرکزی رہنما ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے سینٹ کے اجلاس میں پوائنٹ آف پبلک امپور ٹینس پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گذ شتہ ایک ہفتے میں میرے تین بھتیجوں کو غائب کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قدرت اللہ جمالدینی, جمالدین جمالدینی کو 28 فروری کو نوشکی سے جبکہ مہراک جمالدینی کو یکم مارچ کی شب کوئٹہ سے اغوا کیا گیا ۔انتظامیہ ایف آئی آر درج کرنے سے اجتناب کررہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک سینیٹر کے بھتیجے محفوظ نہیں تو پھر ایک عام آدمی کہاں جا کر اپنا رونا روئے۔

اسکے علاوہ بلوچستان کے شہر تْمپ ملانٹ سے عظیم ولد امام بخش اور گزشتہ روز نہنگ سے دو افراد، بابا اور اکرم ساکن ملانٹ کو حراست کے بعد لاپتہ کردیا گیا۔ واضع رہے یہ دونوں افراد خلیج ممالک سے چھٹیوں پر آئے ہوئے تھے۔

اگلے روز تمپ سے ہی صغیر اور جلیل نامی افراد کو فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔

دو مارچ کو پنجگور کے علاقے تسپ گورنمنٹ ہائی اسکول سے پاکستانی اداروں نے دوران امتحان ایک طالبعلم کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے، جس کی شناخت انیس ولد عبدالخالق کے نام سے ہوئی ہے۔

اسکے علاوہ ضلع کیچ سے ایک اسکول ٹیچر کو فورسز نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا- شاپک کے رہائشی ماسٹر مجاہد کلوزائی ولد ماسٹر شہداد کو رات ایک بجے تربت کے علاقے آبسر میں انکے گھر پر چھاپہ مار کر پاکستانی فورسز نے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا-

فورسز نے ریاستی سرپرستی میں منائے جانے والی مکران میلے سے بھی کسمن نوجوان کو گرفتاری بعد لاپتہ کردیا۔ اطلاعات کے مطابق لاپتہ کئے جانے والے تیرہ سالہ نوجوان کو کہن پشت کے رہائشی محمد امین کا بیٹا بتایا جارہا ہے.

فروسز نے مستونگ سے بھی 6 افراد کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا تاہم گرفتار افراد کے نام معلوم نہ ہوسکے۔

پنجگور کے علاقے پروم میں واقع بازار سے سیکورٹی اداروں نے ڈاکٹر اختر ولد حمل کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔ ڈاکٹر اختر پروم کے ہی رہائشی بتائے جاتے ہیں۔

ایک دوسرے واقعے میں بلوچستان کے شہر آواران کے علاقے گیشکور میں پاکستانی سیکورٹی اداروں نے نیاز ولد عبداللہ نامی شخص کو فورسز کیمپ طلب کیا۔ اطلاعات کے مطابق نیاز واپس اپنے گھر نہیں لوٹا ہے اور تب سے کسی سے رابطے میں بھی نہیں ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ مذکورہ شخص کو بھی پاکستانی فورسز نے حراست میں لیا ہے۔

اسکے علاوہ پاکستانی فورسز نے شاہی تمپ سے جمیل ولد انور سکنہ الندور کو ایک گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا۔

گزشتہ شب ہوشاپ میں چھاپہ مار کر پاکستانی سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے صمد ولد علی جان کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ دی بلوچستان پوسٹ کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق اس چھاپے کے دوران گھر کے دیگر افراد کے ساتھ بھی بدتمیزی سے پیش آیا گیا۔

ایک اور واقعے میں کیچ کے علاقے کیساک سے پاکستانی اہلکاروں نے دو افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ان افراد کی شناخت علی بخش ولد قادر بخش اور عوض ولد ملنگ کے ناموں سے ہوئی۔ دونوں ہوشاپ کے رہائشی بتائے جاتے ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور اور کلینر ہیں۔

تمپ کے علاقے آسیا آباد میں پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مار کر ایک بلوچ نوجوان طفیل ولد رفیق کو اپنے ساتھ لے گئے۔

آج بروز جمعرات کوعلی الصبح تربت کے علاقے آبسر کہدہ یوسف محلہ میں فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مارکر 8سالہ شجاع کو حراست میں لیکر لیجانے کی کوشش کی، خواتین و بچوں کی شدیدمزاحمت پر فورسز نے انہیں چھوڑ دیا جبکہ عظیم ولد داد رحیم نامی ایک شخص کو لے جانے میں کامیاب ہوگئے ۔

یہ جبری گمشدگیوں کے حالیہ رونما ہونے والے محض وہ واقعات ہیں جن کے متعلق دی بلوچستان پوسٹ کو معلومات حاصل ہوئی ہے، بلوچستان کے اکثر دورافتادہ اور پہاڑی علاقوں سے معلومات تک رسائی انتہائی مشکل ہے اور اکثر لواحقین اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے واقعات کو سیکیورٹی فورسز کے دباؤ کیوجہ سے میڈیا کے سامنے نہیں لاتے، کیونکہ ماضی میں پیش آنے والے دلخراش واقعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے لواحقین سمجھتے ہیں ایسا کرنے سے اُنکے پیاروں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔