رواں مہینے بلوچستان سے پاکستانی فورسز نے 35 افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے۔
گوادر سے اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز نے دورو چیک پوسٹ کے قریب سے تین نوجوانوں کو دوران سفر حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
بلوچ نیشنل مومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کے مطابق پاکستانی فورسز نے گذشتہ روز 17 اکتوبر کو دورو چیک پوسٹ کے قریب سے بلوچستان کے ضلع کیچ کے رہائشی فیصل بلوچ، حمزہ اور موسیٰ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ اکتوبر میں دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان، کراچی سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں سے 39 بلوچ طالب علم سمیت شہری جبری گمشدگی کا نشانہ بنے ہیں جن میں بعد ازاں پنجاب کے شہر لاہور سے لاپتہ چار طالب علم بازیاب ہوگئے جبکہ 35 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
پانک رپورٹ کے مطابق گذشتہ مہینے ستمبر میں یہ تعداد 41 تھی جبکہ چند افراد بازیاب بھی ہوئے تھیں۔
بلوچستان جبری گمشدگیوں میں ایک بار شدت دیکھنے میں آئی ہے جبکہ سب سے زیادہ مختلف علاقوں میں زیر تعلیم اور ہاسٹلز میں رہائش پزیر طلباء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بلوچستان میں موجود سیاسی و انسانی حقوق کے تنظیموں نے ان جبری گمشدگیوں پر شدید تشویش کا اظہا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بار پھر ریاست بڑی زور سے بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنارہی ہے جس میں ابتک درجنوں طلباء و دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اور عام شہری نشانہ بنے ہیں۔
ان تنظیموں میں عالمی اقوام و انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کریں۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے تحفظ شہری و سیاسی حقوق نے پاکستان میں شہری اور سیاسی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کے دوران بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کو اجاگر کیا۔
اقوام متحدہ کے کمیٹی کے مطابق 2004 سے لیکر 2014 تک 7 ہزار سے زائد جبری گمشدگیوں کے کیسز درج ہوئے ہیں جبکہ ان کیسز میں آئے روز مزید اضافہ ہورہا ہے۔
اقوام متحدہ کمیٹی برائے تحفظ شہری و سیاسی حقوق کا سیشن آج بھی جنیوا میں جاری رہا جہاں کمیٹی کے خدشات پاکستانی وفد برائے جنیوا کے سامنے رکھے اور انسے جواب طلب کئے۔