راسکوہ کا جلتا چراغ
تحریر: ثناء ثانی
دی بلوچستان پوسٹ
کراچی ایئرپورٹ کی وہ رات غیر معمولی تھی۔ ملیر میں سکون تھا، ہوا میں خنکی چھائی ہوئی تھی اور شہر کی روشنیاں رات کو حرارت دے رہے تھے لیکن ایئرپورٹ کی فضا میں ایک خاص تناؤ چھایا ہوا تھا۔ فلڈ لائٹس کی چمک سے رن وے روشن تھا اور فضا میں ہر لمحے بڑھتے ہوئے خطرے کا احساس گردش کر رہا تھا۔ ایک طیارے میں اہم شخصیات کی آمد متوقع تھی، جس نے شہر کی رات کو مزید جاگنے پر مجبور کر دینا تھا۔
آسمان میں دور سے ایک روشنی تیزی سے قریب آ رہی تھی، یہ روشنی اُس طیارے کی تھی جو چینی سرمایہ کار اور انجینئروں کو لئے ایئرپورٹ کے رن وے پر اترنے کے لیے نیچے آ رہا تھا۔ ایئرپورٹ کی بلند عمارتوں کے سائے میں، ہوائی اڈے میں رینجرز اور پولیس کے اہلکار مستعدی سے کھڑی تھیں۔ ہتھیاروں سے لیس اہلکاروں نے رن وے اور ایئر پورٹ کے اردگرد سخت پہرہ دیا ہوا تھا۔ ان کی آنکھوں میں چوکسی اور ہاتھ بندوقوں کے ٹریگر پر تھے، جیسے وہ کسی بھی اچانک خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
طیارہ رن وے پر اترتے ہی بریک کی چرچراہٹ کے ساتھ شور پیدا کرتے ہوئے رکھا اور شور کی گونج پورے ایئرپورٹ میں پھیل گئی۔ بوئنگ کے دروازے پر سیڑھی لگائی گئی اور کچھ لمحوں کے بعد چمکتے یونیفارم میں ملبوس چینی افسران نے طیارے سے باہر قدم رکھا۔ ان کے قدموں کی مضبوط آوازیں سیڑھیوں پر گونج رہی تھیں، جیسے وہ اپنے ملک کی طاقت اور وقار کو اپنے ساتھ لیے جا رہے ہوں۔
چینی افسران کو فوری طور پر ایک خصوصی کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک محکم نظام مرتب کیا گیا تھا۔ وہ کمرہ، جسے “ریڈ روم” کہا جاتا ہے، سکیورٹی کلیرنس کے لیے مختص تھا۔ رن وے پر ان کے ارد گرد خاص دستہ تعینات تھا، جس میں ایس ایس جی کمانڈوز اور پاکستان آرمی کے خصوصی یونٹس شامل تھے۔ ان کے قدموں کی چاپ ایئرپورٹ کی پتھریلی فرش پر گونج رہی تھی، اور ہر قدم کے ساتھ اردگرد تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔
ریڈ روم میں چینی افسران کی شناخت اور سکیورٹی کلیئرنس کا عمل شروع ہوا۔ ریڈ روم کے باہر جدید ترین آلات نصب کیے گئے تھے جو کسی بھی مشکوک چیز کو فوراً پکڑ سکتے تھے۔ ایئرپورٹ کے عمارت کی چھت پر اسنائپرز اپنے پوزیشنوں سنبھالے ہوئے تھے، جن کی آنکھیں ہر سمت میں گھوم رہی تھیں۔ سکیورٹی پروٹوکول کے تحت، ایئرپورٹ کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر سادہ لباس میں ملبوس اہلکار موجود تھے اور سکیورٹی اہلکاروں نے ہر سمت میں اپنی جگہیں سنبھال رکھی تھیں۔
چینی افسران اور انجینئرز جب ریڈ روم سے باہر نکلے تو انہیں بلیٹ پروف لینڈ کروزر اور بلیٹ پروف کوسٹر منی بس میں بٹھایا گیا۔ گاڑیوں کے ارد گرد پاکستانی سکیورٹی افسران کی چوکسی مزید سخت ہو چکی تھی۔ قافلہ جب ایئرپورٹ سے باہر نکلنے لگا، تو ان کی گاڑیوں کے سامنے اور پیچھے ایجنسیوں کی گاڑیاں حرکت میں آئیں اور مختلف اہم مقامات پر سیکورٹی موجود تھی۔
شاہ فہد، جو اس وقت ایئرپورٹ کے قریب اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا، اس منظر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ نوشکی کا وہی نوجوان تھا جسے راسکوہ کے جلے ہوئے پہاڑوں نے ایٹمی دھماکوں کی گونج سنائی تھی۔ اس کے دل میں آج کے مشن کا جوش اور عزم بھرا ہوا تھا۔ اس نے اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے ڈیٹونیٹر پر ہاتھ رکھا اور ایک آخری بار اپنی زندگی کو یاد کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کے لیے اس نے اپنی زندگی کے تین سال انتظار میں گزارے تھے، جسے اس نے ایک عہد سمجھ کر اپنے دل میں محفوظ کر لیا تھا۔
قافلہ جب ایئرپورٹ کے دروازے سے باہر نکلا اور شہر کی سڑکوں کی طرف بڑھا، تو شاہ فہد نے اپنی گاڑی کو تیزی سے حرکت دی اور بارود سے بھری گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے قافلے کا پیچھا کیا۔ اس کے ذہن میں یہ گونج واضح تھی کہ آج وہ اپنے مشن کو پورا کرے گا۔
ایئرپورٹ کے باہر ہر طرف پولیس کی گاڑیاں اور سکیورٹی اہلکاروں کا حصار تھا، لیکن فہد بارود سے بھری اپنی گاڑی کو قافلے کے عین درمیان پہنچانے میں کامیاب ہوچکا تھا ۔ قافلے کی گاڑیاں جب ایئر پورٹ سے شاہراہ فیصل پر نکلنے کے لئے روڈ کے نکڑ پر ایئرپورٹ سگنل کے قریب جیسے ہی پہنچیں، فہد نے اپنی گاڑی کو قافلے کے مین شامل چینی سرمایہ کاروں کے گاڑی سے ٹھکرا کر زوردار دھماکہ کر دیا۔
ڈیٹونیٹر کا بٹن دبانے کے ساتھ ہی فہد کی گاڑی ایک زور دار دھماکے سے پھٹ گئی۔ ایک لمحے میں، بارود کی طاقتور لہر نے پورے قافلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ کے شعلے آسمان کی طرف لپکے، جیسے کسی دیوہیکل دیے نے تاریک رات کو روشن کر دیا ہو۔ دھماکے کی گونج اور روشنی کی چمک اتنی تیز تھی کہ قریبی عمارتوں کے شیشے چٹخنے لگے اور ایئرپورٹ کی بلڈنگ کی دیواریں لرز اٹھیں۔
دھماکے کی گونج کراچی کے دور دراز علاقوں تک سنائی دی اور شہر کے باسیوں نے اس لرزتے ہوئے لمحے کے خوف کو اپنے دلوں میں محسوس کیا۔ شعلوں کا طوفان اتنا شدید تھا کہ گاڑیوں کے پرخچے اڑ گئے اور فضا میں دھوئیں کے بادل چھا گئے۔ وہ بلیٹ پروف گاڑیاں، جو ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھیں، اب آگ کی لپیٹ میں تھیں۔ آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے اور رات کا سینہ تاریکی کو چیرتا ہوا روشنی سے چمک اٹھا۔
یہ روشنی ستاروں کی روشنی ہے، امنگوں کی روشنی ہے ، آزادی کی روشنی ہے جو فہد کی آخری سانس کے ساتھ پورے شہر کو جگا چکی تھی۔ اس کی قربانی کا یہ لمحہ آج کراچی کی اس رات کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنا گیا ہے۔ وہ چینی سرمایہ کار ، جو خود کو محفوظ سمجھتے تھے، اس تباہی کے گواہ بن چکے ہیں اور جلتی ہوئی گاڑیاں بلوچ جنگجوؤں کی فتح کی نشانی بن چکے ہیں۔
دھماکے کے بعد ایک لمحے کے لیے فضا میں خاموشی چھا گئی تھی لیکن پھر سائرن کی آوازوں نے اس خاموشی کو توڑ دیا۔ پولیس کی گاڑیاں اور ایمبولینسیں موقع پر پہنچ گئیں، مگر اب وہاں صرف جلتے ہوئے شعلے اور ملبے کا ڈھیر باقی رہ گیا تھا۔
کراچی سے سینکڑوں میل دور، راسکوہ کا جلا ہوا پہاڑ، جس نے کبھی ایٹمی دھماکوں کا درد سہا تھا، آج خوشی سے جھومنے لگا۔ پہاڑوں کی چوٹیاں، جنہوں نے برسوں تک اپنی بے بسی کو چھپائے رکھا تھا، آج فہد کی اس قربانی پر مسکراتی دکھائی دے رہی تھیں۔ بلوچستان کی سرزمین کے ذرے ذرے میں خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی۔
شاہ فہد کی قربانی نے آج ان زخموں پر مرہم رکھ رہے تھے جو برسوں سے بلوچستان کے دل میں جل رہے تھے۔ سمندر کی لہریں بھی خوشی سے جھومنے لگیں، اور صحراؤں کی ریت بھی جیسے ہوا کے ساتھ رقص کر رہی ہو۔ ہر ذرے نے گواہی دی کہ وہ لاوارث نہیں ہیں، کہ ان کے پاس فہد جیسے عاشق سرزمین موجود ہیں۔
آج فہد کی عظیم قربانی تاریکی میں روشنی کا کردار ادا کررہا ہے ۔ یہ روشنی، جو بارود کے شعلوں سے نکلی تھی، تا ابد جلتا رہے گا ۔ یہ روشنی ہمیشہ کے لیے اس رات کا حصہ بن گیا ہے ، اس قربانی کا حصہ جو شاہ فہد نے اپنے مادر وطن کے لیے پیش کیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں