مستونگ: سن 2000 سے بیٹا جبری گمشدگی کا شکار ہے – بی بی فاطمہ

160

مستونگ کے رہائشی بی بی فاطمہ نے کہا ہے کہ میرا بیٹا غلام مصطفی واپڈا میں ملازم تھا سن 2000 میں جب فوجی حکومت کے دوران فوج واپڈا میں آئی تو میرے بیٹے کے ساتھ فوجی اہلکاروں نے بدتمیزی کی اور لڑائی بھی کیا، لڑائی کے بعد میرے بیٹے غلام مصطفی کو درینگڑھ ٹرانسفر کیا گیا ایک مہینہ میرا بیٹا درینگڑھ میں ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا جب اس کا ایک مہینہ پوری ہوا تو وہ ڈیوٹی سے چھٹی کر کے اپنی تنخواہ لینے گیا اور اپنا تنخواہ لے کر گھر آیا اور تنخواہ مجھے دے دی جبکہ اپنے جیب کے لیے خرچہ اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ دن کے بعد جب اس کی چھٹیاں ختم ہو گئیں تو وہ اپنے ڈیوٹی کے لیے روانہ ہو گیا اسی دن سے لے کر آج تک میرا بیٹا واپس گھر نہیں لوٹا۔

انہوں نے کہاکہ ابھی اس کو 24 سال ہو رہے ہیں تاحال اس کا کوئی حال واحوال نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے زندہ ہے بھی کہ نہیں؟

بی بی فاطمہ نے کہاکہ جبکہ میرا دوسرا بیٹا شہید فقیر محمد عاجز جس کی ڈیوٹی کیڈٹ کالج مستونگ میں تھی جو اپنے بھائی کے بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے 2010 میں میرے بیٹے شہید فقیر محمد عاجز کو کیڈٹ کالج ایف سی چیک پوسٹ مستونگ سے پاکستانی فورسز نے میرے بیٹے کو اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا اور ایک مہینے کے بعد میرے بیٹے کی لاش غنجہ ڈوری مستونگ میں پھینکی گئی۔ اسطرح میرا برسرروزگار بیٹا بھی شہید ہوگیا جو اپنے بھائی کے لیے انصاف مانگ رہا تھا اور اس کی بازیابی کے لئے جدوجہد کررہا تھا۔