بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے پارٹی میں نظم و ضبط اور ذیلی اداروں کا مرکزی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی اور مرکزیت کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے انفرادی ایکٹیوزم کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے تاکید کی کہ بی این ایم کے کارکنان کو پارٹی کے نظم و ضبط کے اندر رہتے ہوئے اجتماعی عمل کرنا چاہیے۔پارٹی میں انفرادی سوچ کی اہمیت ضرور ہے لیکن اس پر عمل کرنے کا ایک ضابطہ بھی موجود ہے جس کی پابندی ہر کارکن کو کرنی چاہیے۔
انھوں نے ان خیالات کا اظہار برطانیہ میں بی این ایم کے کارکنان کے ساتھ ایک نشست میں کی۔ چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کی صدارت میں ہونے والا یہ اجلاس تین حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصے میں بی این ایم کے سینئر وائس چیرمین ڈاکٹر جلال بلوچ کی تحریر کردہ کتاب ’’پولیٹیکل منیجمنٹ‘‘ کی رونمائی کی گئی۔ یہ کتاب بی این ایم کی تربیتی سیریز کا حصہ ہے۔
اس نشست کی نظامت کے فرائض بی این ایم یوکے چیپٹر کے نائب صدر نسیم عباس نے انجام دیئے۔ ڈاکٹر جلال بلوچ کی کتاب کی رونمائی بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ، جونیئر جوائنٹ سیکریٹری حسن دوست بلوچ، بی این ایم فارن ڈپارٹمنٹ کے کوارڈینیٹر فہیم بلوچ، ڈپٹی کوارڈینیٹر نیاز بلوچ اور بی این ایم یوکے چیپٹر کے پریزیڈنٹ منظور بلوچ نے کی۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے تنظیمی امور میں نظم و ضبط پر بات کرتے ہوئے مزید کہا بی این ایم ایک جمہوری پارٹی ہے لیکن جمہوری عمل کا بھی ایک ادارہ جاتی طریقہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی ممبر کوئی نیا طریقہ ، نئی سوچ اور نئی پالیسی سامنے لانا چاہتا ہے تو اسے ان اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ ہر نیا خیال یونٹ میں ڈسکس ہو ، چیپٹر یا زون تک پہنچے اور پھر سینٹرل کمیٹی میں پہنچ کر پالیسی بنے تب ہی وہ پارٹی پالیسی کہلائے گی ، کسی کے انفرادی خیال کو پالیسی نہیں کہا جاسکتا۔
انھوں نے کہا کبھی کبھار سوشل میڈیا پر دوستوں کی رائے پر بحث ہوتا ہے اور کچھ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ پارٹی کی پالیسی ہے لیکن ایسا قطعا نہیں ہے کیونکہ پالیسی سینٹرل کمیٹی کی طرف سے آتی ہے ، کوئی خیال ، رائے ، تجویز سی سی میں منظور ہونے کے بعد ہی پالیسی بنتی ہے۔پارٹی ہو یا ایک ملک وہ ایک ہیرارکی نظام کے تحت آگے بڑھتی ہے۔ ملک آئین و ڈسپلن کے تحت قائم ہیں اور پارٹی کو بھی یہی قائم رکھتے ہیں۔
بی این ایم کے چیئرمین نے اپنی گفتگو میں بی وائی سی اور پی ٹی ایم کی جدوجہد پر بھی بات کی اور انھیں سراہا، انھوں نے کہا پاکستان بلوچ اور پشتون دونوں اقوام کے ساتھ یکساں سلوک کررہا ہے اور دونوں اقوام میں نیشنلزم اور نظریاتی سیاست کی گہری ہوتی ہوئی جڑوں کو کاٹنے کی تگ و دو میں ہے۔ پشتون سماج میں بلوچ کی نسبت پاکستان بہت سے قومیت مخالف عناصر کو پروان چڑھانے میں زیادہ کامیاب رہا ہے۔مذہبی انتہاپسندی اور قبائلی نظام بھی وہاں پر مضبوط شکل میں ہیں ان تمام عناصر کے خلاف پشتون قومی سوچ کے ساتھ پی ٹی ایم مزاحمت کر رہی ہے اور وہ اپنے مقصد کے ساتھ جڑ کر ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل جن عناصر نے پشتون قوم دوستی کو ابھارا آج وہ پاکستانی پارلیمان میں ہیں اور مخالف سمت میں گامزن یہ قوتیں بھی پی ٹی ایم کے مقاصد کے سامنے رکاوٹ ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم ) اور بلوچ یکجہتی کمیٹی ( بی وائی سی ) پر ریاست اس لیے پابندی لگا رہی ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں پشتون اور بلوچ قوم کو اختلافات سے نکال کر ایک قومی سوچ کے ساتھ متحد کر رہی ہیں۔
انھوں نے کہا بلوچ گلزمین پر قوم دوستی کا ابھار ہے ، سیاسی حقوق کی تحریک اور اس کی قیادت قبولیت حاصل کرچکی ہے جو خوش آئند ہے لیکن وہاں موجود کیڈرز کو ماضی سے کٹنے کی بجائے ماضی کے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔ یہاں موجود سینئر سیاسی کارکنان نے ایک طویل عرصہ بلوچ جدوجہد میں گزارا ہے ، جن حالات سے گزرے ہیں ان کی وجہ سے ان کے پاس تجربات ہیں۔ کیڈرز کو ان سے سیکھ کر اپنے آپ کو منظم کرنا چاہیے۔ ایک سخت دور بی ایس او ( آزاد ) ، بی آر پی اور بی ایم ایم پر گزرا ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم آج بھی بی این ایم کے پلیٹ فارم پر جدوجہد کر رہے ہیں۔دشمن نے قوم دوست سیاسی کارکنان کے خلاف سخت کارروائیاں کیں، انھیں قتل کیا ، زندانوں میں قید ہیں لیکن ان کی سوچ بلوچستان کے ہر گھر تک پہنچ چکی ہے۔
چیئرمین نے بی وائی سی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا بی وائی سی کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے ایک منظم منصوبہ بنایا ہے ، جس میں 1997 میں نواز شریف دور میں بنایا گیا متازعہ انٹی ٹیررازم ایکٹ ( اے ٹی اے ) کی فورتھ شیڈول پالیسی بھی شامل ہے تاکہ پاکستانی ریاستی اداروں کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا آئینی اختیار حاصل ہو ۔اس قانون کے تحت ان کی نقل و حرکت کو روک کر وہ جواز پیدا کرسکتے ہیں کہ یہ آئینی عمل ہے کیونکہ فورتھ شیڈول میں ان لوگوں پر دہشت گردی کا شبہ ہے۔اب یہ بلوچستان کی سیاسی سرفیس پر موجود قیادت اور کیڈرز پر ہے کہ وہ ایسی پالیسی اور طریقہ ہائے کار اختیار کریں کہ انھیں اپنی ہی زمین پر رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے طویل المدتی مواقع حاصل ہوں۔