لاہور میں بلوچ طلباء کے ہاسٹلوں پر چھاپے، انہیں اغواء کرکے لاپتہ کرنا ناقابل برداشت عمل ہے۔ بی ایس سی

80

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طلباء اب ملک کے کسی کونے میں بھی محفوظ نہیں ہیں حالیہ چند مدتوں میں ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ طلباء کی جبری گمشدگی کے واقعات میں بہت بڑی تیزی لائی جا رہی ہے، طلباء کی پروفائلنگ اور انہیں ہراسان کرنا ایک معمول بن چکا ہے حتیٰ کہ انہیں ہراسان اور انکی پروفائلنگ کرنے میں یونیورسٹیوں کے انتظامیہ سے لے کر لیکچرار اور کلرکس تک شامل ہیں۔ اور آئے روز پنجاب میں مقیم بلوچ طلباء کے لئے چیلنجز اور خطرات بڑھائے جا رہے ہیں اور اس خطے میں جبری گمشدگی کے غیر انسانی و غیر قانونی فعل کو طول دیا جا رہا ہے۔ صرف اسی سال کے دورانیے میں تقریباً آٹھ دس ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں پنجاب کے مختلف شہروں سے بلوچ طلباء کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے۔ ان واقعات کے خلاف ہم بحیثیت بلوچ طلباء پلیٹ فارم روزِ اول سے بلوچ دشمن عناصر کے خلاف صف بستہ کھڑے تھے اور ساتھیوں کی تحفظ و سلامتی کو کسی صورت کمپرومائز نہیں کر سکتے۔

ترجمان نے مسئلے کے مختصراً جائزے کے بعد کل نصف شب لاہور میں رونما ہونے والے واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سادہ دریس میں ریاستی خفیہ اداروں کے کارندے اور پنجاب پولیس نے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں غیر قانونی طور پر چھاپہ مار کر دو طلباء کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنے ساتھ اغواء کرکے لے گئے جن میں ایک اسٹوڈنٹ کو تھوڑی دیر بعد رہا کیا گیا جبکہ شمریز بلوچ فرزندِ ماسٹر فرید نوشکی کے رہائشی ہیں اور وہ اس وقت سپیرئیر یونیورسٹی لاہور کے شعبہِ قانون کے طالب علم ہیں کو اپنے ساتھ لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ اسی دورانیہ میں یونیورسٹی آف لاہور میں پڑھنے والے بلوچ طلباء کے ہاسٹلوں پر چھاپہ مارا گیا طلباء کو ہراسان کرنے کے ساتھ وہاں سے بھی دو طلباء کو بزور طاقت و تشدد اپنے ساتھ لے گئے جن میں ایک طالبعلم کو چند وقت بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ دوسرا دیدگ بلوچ فرزندِ یونس بلوچ نوشکی کے رہائشی اور اس وقت یونیورسٹی آف لاہور کے شعبہ معاشیات کے طالب علم کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اس اثناء میں ہمارے ساتھیوں نے پولیس سے رابطہ اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے لیکن ابتک ہمیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی ان کے صلاحتیوں کو نیست کرنے کی کاوش ہے اور ریاست اسی بد نیتی کے ساتھ اس غیر انسانی امر کو طول دے رہا ہے تاکہ بلوچ طلباء کو علم و تدریس اور تربیت کے عمل سے دور رکھ کر انکو تاریکیوں میں رکھا جائے لیکن اب بلوچ طلباء ریاستی جبر اور تشدد کے سامنے قطعاً خاموش نہیں رہ سکتے اور اپنے بقاء اور سلامتی کے لئے ہر فورم پر کھڑے رہیں گے۔