مظاہرین نے کمشنر مکران کے دفتر کے سامنے دھرنا دیتے ہوئے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
آواران سے جبری لاپتہ دلجان بلوچ کی رہائی کے لیے انکے لواحقین کی جانب سے آج آواران میں شہر میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، ریلی ڈاکخانہ آفس سے شروع ہو کر ڈی سی کمپلیکس تک پہنچ کر دھرنے کی شکل اختیار کرگئی-
ریلی میں بڑی تعداد میں مرد خواتین کے ہمراہ بچے شامل تھیں۔
مظاہرین ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے دھرنا دیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ رواں سال 12 جون کو آواران تیرتج سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست بعد ازاں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے دلجان بلوچ والد اللہ بخش کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر علاقہ مکینوں کے ہمراہ دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین بھی احتجاجی دھرنے میں شریک تھیں اور آواران سمیت بلوچستان سے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھیں۔
لاپتہ دلجان بلوچ کے اہلخانہ کا اس موقع پر کہنا تھا بلوچستان کا ضلع آواران بربریت کی مثال ہے جہاں آئے روز شدت سے جبری گمشدگی کا عروج ہے۔ اسی طرح پاکستانی فوج کی سات گاڑیوں پر مشتمل ایک لشکر نے 12 جون 2024 کو ہمارے گھر تیرتج پر دھاوا بول کر ہمارے لخت جگر دلجان ولد اللہ بخش کو ہماری آنکھوں کے سامنے اٹھا کر لاپتہ کردیا آج اس واقعے کو چار ماہ ہونے کو ہے لیکن دلجان کا کوئی علم نہیں کہ وہ کس حال میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ضلعی انتظامیہ اور اعلی عہدیداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ دلجان کی بازیابی کے لئے اپنا انسانی کردار ادا کریں، اگر دلجان کو بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم اپنے احتجاج میں وسعت لائیں گے۔