ہم لاپتہ کیوں ہورہے ہیں؟ – عبدالواجد بلوچ

376

ہم لاپتہ کیوں ہورہے ہیں؟

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

جب انسان شعور کی دہلیز تک پہنچتا ہے تو اس کے ہاں سوچنے کی سکت پیدا ہوتی ہے، جب وہ سوچتا ہے تو بے چین ہوتا ہے، یہی وہ بے چینی ہے جس سے انسان کو سکون نصیب نہیں ہوتی. انسان کا رشتہ جب دوسرے انسان کے ساتھ غالب و مغلوب اور ظالم و مظلوم یا آقا اور غلام کا ہو تو مغلوب مظلوم اور غلام جب سوچتا ہے تو وہ لاپتہ ہوتا ہے.اس سماج میں انسان نما جانوروں کی بہتات نہیں لیکن انسان چند ہی لوگ کہلاتے ہیں اور ہاں اسی سماج میں انسان نما درندوں یا جانوروں کو ہمیشہ حقیقی انسانوں سے خوف لاحق ہوتا ہے اور بد قسمتی سے “بلوچ” بھی انہی انسان نما درندوں کے سماج میں سانسیں لینا چاہتا ہے لیکن انہیں سانس لینے نہیں دیا جاتا۔ جب ہم سانس لیتے ہیں، تو آہنی ہاتھ ہمارے حلق کے اندر گھسا دی جاتی ہے، جب ہم بولتے ہیں تو ہماری زبانیں کاٹی جاتی ہیں، جب ہم دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں نوچ لئے جاتے ہیں۔ اسی لئے تو اجتماعی قبروں سے انسانوں کی مسخ کی ہوئی لاشیں ہمیں تحفے میں ملتی ہیں جنہیں کوئی پہچان نہیں سکتا۔

شعور کی بالادستی انسان کو ہمیشہ اونچائیوں تک پہنچا دیتا ہے، پر ہم شعور کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے مسخ ہوجاتے ہیں یا تو ان تنگ و تاریخ کوٹھیوں کے باہوٹی کیئے جاتے ہیں، جو زندگی کی آخری سانس تک ساتھ رہتا ہے. جب شعور از خود وقت و حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہمارے ہاں آنا چاہتا ہو تو اس کے پاؤں توڑ دئیے جاتے ہیں.یقیناً اگر اس سماج میں ان درندہ صفت انسانوں کے ساتھ ہمارا رشتہ آقا و غلام ظالم و مظلوم غالب و مغلوب کا نا ہوتا تو شاید ان رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہمیں. ہم کہتے ہیں کہ ہم پڑھنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جی پڑھکر کیا کروگے، تم لوگ تو تاریخی طور پر پہاڑوں میں رہنے والے وحشی ہو۔ ہم کہتے ہیں چلو ٹھیک ہے ہمیں پہاڑوں میں رہنے دیا جائے تاکہ ہم اپنے مال مویشیوں کی حفاظت کرسکیں گو کہ زمین ہماری اپنی پھر بھی خانہ بدوش جواب ملتا ہے کہ نہیں تم لوگ تو پہاڑوں میں رہوگے تو جنگجو بنوگے مملکت اللہ داد کے لئے خطرہ ثابت ہوجاؤگے۔

کیا عجیب رشتہ ہے ہمارا اس مملکت اللہ داد کے مسلمان بھائیوں سے، ہم کہتے ہیں چلو کوئی مسئلہ نہیں ہمیں اچھا مسلمان بننے دو کہتے ہیں کہ نا نا اگر مسلمان بننا ہے تو ہمارے جیسا بنو، اپنے اسلاف کی جانب ہزاروں سال سے اگائی ہوئی اس پھل کو کاٹنا ہوگا جسے ہمارے آباؤاجداد نے بڑی محنت کے ساتھ اگائی تھی اُس سماج کے بخیے ادھیڑ دو جہاں ہندو، عیسائی ہزارہ اور دوسرے غیر مذہب ہنسی خوشی سے رہ رہے ہیں. مسلمان بننا ہے تو ہمارا فارمولا یہی ہے.پھر بغیر سانس لئیے کہتے ہیں کہ تم لوگ تو کافر ہو لیکن آقا آپ ہمیں کافر بھی بننے نہیں دیتے صاف صاف کہتے کیوں نہیں کہ “جیو مت” جینے کی تمام راہیں مسدود تو ہیں ہی ہمارے لئے، بس ڈھانچہ بچا ہوا ہے، اسے بھی زمیں بوس کردو بات ختم۔

سوچنا سمجھنا بولنا اپنی جگہ انسان نما ان درندوں کی سماج میں “بلوچ” کو حقیقتاً اف تک کرنے کی اجازت نہیں. جی ہاں اسی سماج میں مَیں نے اساتذہ کی آنکھیں نکالتے ہوئے ان درندوں کو دیکھا،خواتین کی بے حرمتی کرکے مردانگی کا دعوایٰ کرتے ہوئے ان سفاکوں کو دیکھا، بوڑھوں کی داڑھیاں کاٹتے ہوئے اچھے اور عظیم سپہ سالاروں کو دیکھا، بچوں کو لاپتہ کرکے دہشت گرد قرار دیتے اس سماج کے عظیم ٹکھیداروں کو دیکھا، ایک ہی جگہ ایک ہی زمین پر نو سالہ آفتاب کو پسِ زنداں جاتے دیکھا اور اسی لمحے چاکر جان کی گولیوں سے چھلنی لاش دیکھی، چند قدموں کے فاصلے پر گودی مہرنگ کو اپنے ابو کی مسخ شدہ لاش کے سامنے حسرت و یاس میں مبتلا دیکھا اور ان پانچ بیٹیوں کے اکلوتے بھائی کو غائب ہوتے دیکھا،نو سالہ مہلب کو اسی آس میں سنِ بلوغت طے کرتے ہوئے دیکھا کہ کب ان کے ابو گھر واپس آئے گا؟ فرزانہ مجید کی چیخ و پکار ابھی بھی سنائی دیتی ہے کہ دو ہزار کلومیٹر کی مسافت طے کرکے وہ پکار رہی تھی کہ اگر ان کے بھائی ذاکر جان نے کوئی گناہ کیا ہے تو انہیں اپنے مقدس عدالتوں میں پیش تو کریں۔

ہمارے علی حیدر کا قصور صرف یہی تھا کہ انہوں نے اپنے ابو رمضان کو کہا ہوگا کہ ابو گوادر ترقی کررہا ہے، جاو وہاں مزدوری کرو اور ہمیں پڑھاؤ؟ جس سماج میں رمضان بلوچ نے سانسیں لیں تھیں اسی سماج کے اندر انہیں گمشدہ کردیا گیا۔ استاد منیر رہشون کی اس بوڑھی ماں کی ان مایوس آنکھوں کو انتہائی کرب میں مبتلا دیکھا کہ وہ اسی امید پر اس کیمپ کے سامنے بیٹھی تھی کہ ان کا لال واپس لوٹے گا. میں نے ان انسان نما درندوں کے ہاتھوں اپنی عزتِ نفس کو مجروح ہوتے دیکھا، قصور صرف اتنا تھا کہ میرے زبان سے دو کلمات نکلے ہونگے جو اپنی بے بسی پر نوحہ کناں تھے۔

ایک سال تین مہینے اس لئے عقوبت خانوں میں گذاریں کہ میں شعور کی دہلیز تک پہنچا ہوا تھا، مجھے اپنے وجود کے ہونے کا احساس ہو چلا تھا، ان عقوبت خانوں میں اس کوٹھی کے دیوار پر لکھی وہ مختصر تحریر اب بھی آنکھوں کے سامنے گومتی ہے جہاں سنگت ثناء نے اپنے مبارک ہاتھوں سے لکھا تھا “ہمارا جسم فنا ہوسکتا ہے پر سوچ نہیں”جب یاد کرتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ شاید یہی وہ رویہ ہے جو ہمارے اور دشمن کے مابین فرق کو واضح کرتا ہے. انہی اذیت گاہوں میں اس دیوار پر سرخ خون سے نبشتہ کی ہوئی وہ جملہ جنہیں شہید زبیر زاہد نے لکھا تھا “تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو ثابت قدم رہنا ہوگا” شاید یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہم لاپتہ ہورہے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے حسّام بلوچ کا قصور یہی ہے کہ انہوں مند جیسے پسماندہ گاؤں کو چھوڑ کر کراچی میں کتابوں سے دوستی نبھائی تھی؟ حسام بلوچ کے ان دوستوں کا کیا دوش جو اس سماج میں باعزت زندگی گذارنا چاہتے تھے. ان ماؤں کا کیا قصور جو اپنے لال کا منتظر رہ کر موت کی آغوش میں چلے گئے؟ ابھی تک ہم حسّام بلوچ اور ان دوستوں کی گمشدگی کے کرب سے نکلے ہی نہیں تھے کہ اسی سماج کے اس ڈاکٹر کو بھی لاپتہ کیا گیا جو انسانیت کا مسیحا تھا ڈاکٹر سعید بادینی کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ بولنا چاہتا تھا؟

اگر سوچنا، بولنا، سمجھنا اچھے اور برے کے مابین فرق واضح کرنا برائی ہے، تو یہ برائی انسانیت کے دشمن ان سفاک قوتوں کی موجودگی میں تا حصولِ منزل جاری رہیگی۔ معذرت چاہتا ہوں مملکت اللہ داد کے ان پنجابیوں اور غیر اقوام کی ماؤں سے جن کے لال بھی لاپتہ ہیں، ہوسکتا ہے انہیں مملکت اللہ داد عزیز ہو لیکن ہمیں “بلوچ” ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔