استاد کا کردار – مزار بلوچ

181

استاد کا کردار

تحریر: مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

استاد معاشرے میں بے حد اہم کردار ادا کرتا ہے۔ استاد اپنے قوم اور سماج کے لیے ایک انمول ہیرے کی مانند ہوتا ہے جو نہ صرف خود روشن ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روشنی سے منور کرتا ہے۔ ہر قوم کا اولین فرض تعلیم ہے کیونکہ تعلیم ہی کی وجہ سے انسان اپنی اور دنیا کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے۔ تعلیم انسان کو صحیح اور غلط، مثبت اور منفی کے درمیان فرق سمجھاتی ہے، اور اسے فکری اور نظریاتی طور پر مضبوط بناتی ہے۔ استاد وہ واحد ذریعہ ہے جس سے کسی قوم یا سماج کے لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہر چیز کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں۔

دنیا میں جہاں بھی سامراج کسی قوم پر قبضہ کرتا ہے، وہ سب سے پہلے اس قوم کی تعلیم کی فراہمی کو بند کرتا ہے کیونکہ سامراج جانتا ہے کہ مظلوم قوم کے لوگ اگر تعلیم حاصل کریں گے تو وہ ایک دن اپنی حقیقت سے واقف ہوں گے۔ تعلیم انسان کے اندر پختگی پیدا کرتی ہے اور انہیں یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ غلام ہیں اور ان پر بزور طاقت قبضہ کیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں سامراج کی سامراجیت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ پختگی پیدا کرنے کے لیے تعلیم کا ہونا ضروری ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے استاد اہم کردار ادا کرتا ہے۔ استاد ہر انسان کا روحانی باپ ہوتا ہے کیونکہ وہ انسان کو روحانی تربیت دیتا ہے، اسے دنیا کے ہر عمل سے واقف کرتا ہے، اور اس کے اندر شعور اور پختگی پیدا کرتا ہے۔ سامراجی قوت ہر وقت جانتی ہے کہ تعلیم یافتہ قوم کو زیادہ دیر تک غلام نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی زیادہ دیر تک اندھیرے میں رکھا جاسکتا ہے۔

ریاست بھی سامراج کی طرز پر ہمیشہ بلوچ قوم کو تعلیم حاصل کرنے سے دور رکھتی آئی ہے۔ ریاست جانتی ہے کہ اگر بلوچ قوم تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ اپنی حقیقت سے واقف ہو کر اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہو جائے گی۔ بلوچ قوم کے ساتھ ریاست کا رویہ ہمیشہ سے تعصبانہ رہا ہے۔ تعلیم سے محروم رکھ کر ریاست بلوچ قوم کو جہالت میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق اور اپنی آزادی کے لیے آواز نہ اٹھا سکیں۔ بلوچ قوم کو جان بوجھ کر تعلیمی اداروں سے دور رکھا جاتا ہے، ان کے تعلیمی اداروں کو یا تو بند کر دیا جاتا ہے یا پھر ان میں تعلیمی معیار کو اتنا پست رکھا جاتا ہے کہ وہاں کے طلباء معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بلوچ قوم کے نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھ کر ریاست ان کی فکری اور نظریاتی مضبوطی کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ قوم میں استاد کا کردار مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔

استاد ان حالات میں بلوچ قوم کے لیے روشنی کی ایک کرن ہے جو ان کی روحانی تربیت کر کے انہیں شعور اور پختگی عطا کرتا ہے۔ استاد کا فرض ہے کہ وہ بلوچ قوم کے بچوں کو نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دے بلکہ انہیں ان کے حقوق اور ان کی شناخت کی اہمیت سے بھی روشناس کرائے۔ لہذا، یہ ضروری ہے کہ بلوچ قوم کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی شناخت اور حقوق کے لیے بہتر طور پر لڑ سکیں۔ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو بلوچ قوم کو اپنی حقیقت سے آگاہ کر کے انہیں آزادی اور خودمختاری کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ ریاست کے تعصب اور جبر کے خلاف، تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو بلوچ قوم کو ظلم کے اندھیروں سے نکال کر روشن مستقبل کی طرف لے جا سکتی ہے۔ تعلیم کے بغیر کسی قوم کی ترقی ممکن نہیں اور بلوچ قوم کو بھی اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے تعلیم حاصل کرنا ہوگا۔

استاد کا کردار اس جدوجہد میں نہایت اہم ہے کیونکہ وہ قوم کی نئی نسل کو نہ صرف علم فراہم کرتا ہے بلکہ ان کے اندر خود اعتمادی اور فکری پختگی پیدا کرتا ہے۔ بلوچ قوم کو اپنی تعلیم کی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی تاکہ وہ اپنی حقیقت اور اپنے حقوق سے آشنا ہو سکیں اور ریاست کے ظلم و جبر کا مقابلہ کر سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔