بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابق انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کے جبری گمشدگی کو چار اکتوبر کو آٹھ سال مکمل ہوں گے۔
لاپتہ شبیر کی ہمشیرہ سیما بلوچ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ چار اکتوبر 2024 کو میرے بھائی شبیر کو پاکستانی عقوبت خانوں میں 8 سال مکمل ہو جائیں گے۔ 8 سال کہنا شاید آسان ہو، لیکن انہیں گزارنا انتہائی مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم میں صرف شبیر ہی نہیں ہے جو اغواء نما گرفتاری کا شکار ہوا، بلکہ ہزاروں شبیر ہیں جنہیں روزانہ کی بنیاد پر اٹھایا جاتا ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ادارے ان لوگوں کو اٹھا کر غائب کر دیتے ہیں، خدا جانے انہیں کہاں لے جایا جاتا ہے، لیکن اکثر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں یا نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری بوڑھی ماں، شبیر کی نیم بیوہ بیوی اور ہم سب شبیر کی باحفاظت واپسی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستانی اداروں سے ہماری درخواست ہے کہ اگر شبیر سمیت کسی بھی شخص نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کریں، لیکن یوں ان کے خاندان کو سزا نہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ شبیر کی باحفاظت واپسی کے لیے 4 اکتوبر کو ایک ٹویٹر کیمپین چلائی جائے گی۔ تمام لوگوں سے درخواست ہے کہ اس ٹویٹر کیمپین کا حصہ بنیں اور شبیر سمیت جو بھی پاکستانی اداروں کی اغوا نما گرفتاری کا شکار ہیں، ان کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائیں۔ یہ کیمپین دوپہر 2 بجے سے رات 10 بجے تک جاری رہے گی۔
خیال رہے کہ شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو تربت کے علاقے گورکوپ سے پاکستانی فورسز نے دیگر 20 افراد کے ہمراہ حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا، دو ہفتے بعد دیگر تمام افراد رہا ہوگئے لیکن شبیر بلوچ کی تاحال کوئی خبر نہیں۔
بلوچ طالبعلم رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے لواحقین پچھلے آٹھ سالوں سے سراپا احتجاج ہیں۔