تابش عنایت: قصہ تجدید عہد و گڈی تیر ۔ مہرشنز خان بلوچ 

137

تابش عنایت: قصہ تجدید عہد و گڈی تیر

‏تحریر: مہرشنز خان بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

‏دو ہزار انیس میں فروری کا ٹھٹھرتا مہینہ تھا، گویا ہماوسیہ کی تاریکی نے چندر ماں کی روشنی کو نگل لیا ہو، دن کے وقت سورج کی تپش جیسے اپنی گرم بدن سے شولے اگلنا بھول گئی ہو، ہوا بنی آدم کو تراشتی ہوئی چھری کی مانند کاٹتی ہوئی جا رہی تھی۔ ایک دوست کا پیام آیا، تو پتہ چلا کسی دوست کو سفر پر جانا ہے اور اس کیلئے اسے ہمسفر کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ سفر بقدر دور تھا اور سامان سفر نہایت ہی زیادہ تھے جو کسی ایک سواری پر لادے نہیں جا سکتے تھے۔ دوست کی پکار پر دوسرا دوست حامی بھرتا ہے اور وہ دونوں دوست محو سفر ہوتے ہیں۔ صبح ساڈھے ساتھ بجے جب وہ اپنے علاقے سے نکل کر سفر کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں تین گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ باقی دوستوں سے ملتے ہیں جو انکے سامنے آتے ہیں، جن میں شہید آصف (فدا) تھے اور ایک اور دوست انکے ساتھ تھے، وہاں سے انہوں نے اپنے کھانے والی اشیا کھا لیں اور دوبارہ سفر کی جانب نکل پڑے اور شام کے پانچ بجے اپنے دوستوں کے ساتھ انکی ملاقات ہوتی ہے۔

‏یہ وہ منظر تھا جب ایک کیمپ میں انکی آمد ہوتی ہے جس میں مستقبل میں شہید ہونے والے کئی دوست تھے۔ جن میں سر فہرست فدائی بادل عرف ریاست، فدائی واحد جان، فدائی شعیب، شہید ملا یاسر، شہید فدا، شہید وحید (گلاب) اور شہید تابش عنایت (ریحان) تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب تنظیم میں تنظیمی ڈھانچے اور سرمچاروں کی از سر نو تربیت کیلئے اسلمی فکر کے دوست کوشاں ہیں۔ یہی وہ دور تھا جب رواں انسرجنسی کو ایک نئی روح پھونکی جارہی تھی۔ ایسے حالات میں تنظیم جھانچ پڑتال کے بعد اپنے قلیل مگر پر جزبہ و فکر و نظریے سے لیث ساتھیوں کے ساتھ منظم ہونے کیلئے اپنے ہم خیال ساتھیوں کو تربیت دینے اور انہہں اپنے نہی حکمت عملی سے آشنائی کیلئے تربیت کیلئے بر سر پیکار تھی۔ جیسے ہی ریاست کی آنکھ نئے آنے والے دوست پر پڑتی ہے تو وہ مسکرا کر کہتے ہیں‏ “انڈیا میں ٹائیگر بچاؤ مہم چل رہی ہے جبکہ ہم سرمچار بچاؤ مہم چلا رہے ہیں۔”

‏ باقی دوست قہقے لگا کر ہنس پڑے۔ یہ مزاحیہ بات کب ایک سنجیدہ گفتگو میں بدل گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ ٹھٹھرتی ہوئی شام میں جب ریڈیو کو لگا کر سارے دوست تازہ خبر کا حال جاننے کیلئے آگ کے گرد گول دائرہ بنا کر بیٹھتے اور خبروں کے بعد سوال جواب کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

‏سوال اتنے گہرے کہ اگر مزہبی کسی پیشوا کے سامنے انکے دین کے بارے میں ہوتے تو وہ بلاسفیمی ہوتے، لیکن یہ سوال تحریک سے جڑے کرداروں کے حوالے سے تھے، یہ تحریک میں فدا ہونے والے فدائین کے حوالے سے تھے۔ کیا کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ فدائی کو کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سوال و جواب کا سلسلہ کہیں دوستوں کے مابین ہوا لیکن تابش و ریاست گہرے اور تند و تیز سوال و جواب کی وادی میں گم ہوئے۔ سوال کرنے والا تابش اور جواب دینے والا شہید فدائی ریاست ہوتا۔ ریاست سیگریٹ کا کش لگا کر چائے کی گھونٹ کو محسوس کر کے لینے کے بعد یہ کہتا ہے کہ یہ فلسفہ اگر استعمال کرنے کا ہے تو ہاں یہ استعمال کرنا ہے۔ کیونکہ ہمیں یہاں ہر ایک خون کے بوند کو اپنی آزادی کیلئے استعمال کرنا ہے۔ گفتگو کے اختتام ریاست کی بات پر ہوئی کہ‏ “میں بھی استعمال ہونے والا ہوں”۔

‏ سب ہنس پڑے، انہیں لگا یہ مزاحیہ دوست کی سنجیدہ گفتگو کے بعد موڈ کو نرم کرنے کی ایک جستجو ہے۔ لیکن سب کو کیا پتہ تھا کہ یہ پہاڑی شہزادہ سب کو پیچھے چھوڑ کر انگشت و بہ دنداں کر دیگا۔ تقریبا دس دنوں کے بعد جب انکا سفر اختتام پزیر ہوا تو تابش اور دوسرا دوست اپنے سفر پر واپس نکلتے ہیں۔ تقریبا ایک سال بعد ایک بڑے پیمانے پر کیے جانے والے آپریشن کا حال انہیں پہنچتا ہے، اس دوران آٹھ دن تک دوست صرف بندوق اور پانی کی بوتل لیے پہاڑوں پہ بھٹک رہے ہوتے ہیں۔

‏شہید وحید جان (گلاب) کی بیوی اپنی شیر خوار اولاد کو سینے سے تھامے آٹھ دن تک (کوش) جنگلی پودے اور پانی سے گزارا کر کے خود کو ایک گاؤں تک پہنچاتی ہے جس کی وجہ سے انکی جان بچ جاتی ہے۔ لیکن وہ شیر خوار اس بات سے نا بلد ہوتا ہے کہ اسکا والد ایک ایسا کام کرنے جارہا ہے کہ جنگ اسے امر کریگی اور دنیا اسکے گیت گائے گی۔

‏جب آٹھ ہیلی کاپٹروں کی ایک فلیٹ انکے کیمپ کے قریب آتی ہے تو گلاب اور آصف انکی توجہ ہٹانے کیلئے خود کو انکے سامنے لا کر جنگ شروع کرتے ہیں۔ آدھے گھنٹے کے بعدآصف کے سینے کو ایک دو شکا کی گولی چھو کر اسے ہمیشہ کیلئے امر کرتا ہے۔ لیکن قصہ یہاں اختتام نہیں ہوتا، کیونکہ اسکی بندوک کو وحید (گلاب) لیکر مورچہ زن ہوتا ہے اور کہیں گھنٹوں تک پیاس اور بھوک میں لڑائی کر کے جب وہ شہید ہوتا ہے تو اسکی لاش کے ساتھ نو میگزین ہوتے ہیں اور آخری گولی کو وہ اپنے سینے میں پیوست کر کے سارے دوستوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوتا ہے۔ یہ منظر دیکھتے سارے دوست یہ قسم کھاتے ہیں کہ وہ اپنے اسلاف کے بتاے ہوئے قربانی کے راستے سے کبھی روگردانی نہیں کرینگے اور وہ آزادی لینگے یا اخود کو تحریک کیلئے نزر کرینگے۔ یہی وہ دن تھا جب سارے دوستوں نے تجدید قسم کیا اور اپنے اپنے مقاصد کو سینے میں لیے محو سفر ہوئے۔ شہید بادل، شہید حامد رحیم، شہید واحد جان، شہید شعیب نے فدائی کیلئے اپنا نام دیا۔ لیکن ان شہزادوں میں ایک خوشروح نوجوان تھا جو ایک گھاتک جنگجو اور گوریلا سپاہی تھا۔ یہ شہید تابش عنایت تھا۔ جو اپنے دوستوں کی قربانی کو اپنی آنکھوں کےسامنے دیکھ کر قسم کھا چکا تھا کہ میں اگر بندوک رکھونگا تو وہ آخری سانس کے ساتھ ہی رکھونگا۔

‏ایک شام جب دوست کسی مشن کی طرف چل پڑتے ہیں تو اس دوران ایک بھگوڑا ساتھی، جس نے پہلے سے ہی دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہوتا ہے، اسکے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ جب سفر کی طرف نکلتے ہیں تو پنجگور عیسئی کے مقام پر انکا سامنا پہلے سے گھات لگائے دشمن کے آلہ کار اور فوجی دستے سے ہوتی ہے۔ تابش اپنے ساتھی کے ساتھ چونکے سامنے ہوتے ہیں تو وہ مورچہ زن ہوتا ہے اسی دوران اسکا ساتھی بھی اسے پہلے زور دیتا ہے کہ ہتھیار پھینکو، لیکن یہ ایک درخواست نہیں بلکہ وطن زادے کیلئے ایک گالی اور اسکے فکر کو ایک دشنام و بد قول تھی، تابش اسی اثنا میں اپنے تجدید عہد کو ایک فلمائے گئے ساعت کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھ سکتا تھا، ہتھیار پھینکنے جیسے امر کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ دشمن کی طرف سے گولیوں کی برسات اسے اس قسم کی یاد دلاتی گئی جو انہوں نے اپنے دوست کی شہادت پر اٹھائی تھی، یہ وہ قسم تھا جو اپنے وطن اور ماں کی حفاظت کیلئے اٹھائی گئی تھی۔ یہ قسم اپنی دھرتی پر پلید پھیروں سے روندنے والے یلغاریوں کو نکالنے تک جہد کرنے کیلئے اٹھائی گئی تھی اور وہ پلید پھیروں والے بھیڑیے آج اسکی آنکھوں کے سامنے تھے، اسکی سرخ آنکھیں انہیں بندوک کے نشانے کی روح سے دیکھ سکتی تھی۔ یہ قسم بالاچ گورگیج سے لیکر بالاچ مری تک اور پہلے فدائی شہید مجید اول سے لیکر شہید درویش و کچکول، محراب، منصف و حمل دشتی تک کے شہدا کے خون کے بدلے کے عوض آزادی کو ایک حوا کے جھونکے کی طرح محسوس کرنے تک لی گئی تھی۔ تابش اپنے ہاتھ پہ ایک کلاش اور ایک پسٹل لیے گولیوں کی فائر سے ایک خونخوار جنگ کی ابتدا کا صور پھونکتا ہے۔ اسکا ساتھی اسی دوران فوجی آلہ کاروں کی طرف بڑھتا ہے اور تابش اکیلئے اپنے محبوب وطن کی دفاع میں ایک خونریز جنگ کا آغاز کرتا ہے۔ دو گھنٹہ وہ دشمن فوج، ڈیتھ اسکواڈ اور اپنے آستین کے سانپ کے ساتھ دو بدو لڑائی میں مصروف رہتا ہے۔ کہیں دشمن آلہ کار و اہلکاروں کو موت کی نیند سلا کر جب اسکی گولیاں ختم ہوتی ہیں تو وہ اپنے پسٹل کی آخری گولی کو اپنے سینے میں پیوست کر کے خود کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کرتا ہے اور تنظیمی راز، دوستوں کے وعدے، وطن کی محبت اور آزادی کی آرزو لیے وہ ایک طویل سوالات کی فہرست دنیائے انقلاب کیلئے چھوڑ کر شہید ہوتا ہے۔

‏آج بھی جب ایک سرمچار شہید امیر الملک کے آخری گولی کے فلسفے پر چلتا ہے تو وہ تابش کے اس احساس کو دوبارہ زندہ کرتا ہے کہ جب اس نے اپنے محبوبہ کے ہونٹوں کی مانند گولی کو چھوم لیا تھا۔ آج بھی اگر کوئی وطن زادہ بلوچ راجی سوگند؛

‏”من اھد قسم پیمان کناں، آزات بلوچستان کناں”

‏کو گنگناتا ہے تو اسکے سامنے بلوچ تاریخ کے شہزادوں کی لڑی میں تابش، ریاست (بادل) و باقی دوستوں کے قصے دہرائے جائنگے۔ بلوچ شعرا انکے گیت رہتی دنیا تک گاتے رہینگے. وہ بولان کی سبزا زار اور بلند و بالا پہاڈی سے چلنے والی ہوا کی خوشبوہ میں تحلیل ہیں، وہ نیلے بحیرہ بلوچ کی لہروں میں اپنے آخری جنگ کی داستان سناتے ہوے بلوچ فرزندوں کو اپنے قصے سنا کر رقصاں ہیں، آج بھی بلوچ دھرتی کی سنگلاخ پہاڑیوں میں انکے قصے گھونجتی ہیں۔ آج بھی وہ اپنی بندوقوں سے ہر سرمچار کے ہاتھوں دشمن سے نبرد آزما ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔