پاکستان بلوچستان کے حق خود ارادیت میں تاخیر کر کے آزادی کو وقتی طور پر روک سکتا ہے، لیکن بڑی مالی، اخلاقی، سیاسی، اور ساکھ کی قیمت پر۔ ایک بات تو طے ہے کہ بلوچستان کی آزادی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، نہ ہونا چاہیے اور نہ ہی مستقبل میں انکار کرنا ممکن ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار پیٹر ٹیچل نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے زیر اہتمام پانچویں بلوچستان انٹرنیشنل کانفرنس (بی آئی سی ) میں کیا۔
انسانی حقوق کے معروف وکیل ٹیچل نے بلوچستان کے امن اور خود ارادیت کے لیے ایک جامع منصوبے کا خاکہ پیش کیا۔ انھوں نے بلوچ رہنماؤں، کارکنوں اور بین الاقوامی مبصرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دہائیوں سے جاری بلوچستان کے تنازعات اور قبضے کے خاتمے کے لیے ایک واضح، قابل عمل منصوبہ پیش کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
ٹیچل نے بلوچ قوم کو درپیش بے پناہ چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے محض مسائل پر بات کرنے کی بجائے ان کے حل کی ضرورت پر توجہ دی ، انھوں نے کہا کہ ہم سب کو مسئلہ معلوم ہے۔ ’’ ہمیں جس چیز پر توجہ دینی چاہیے وہ ہے حل۔‘‘
عالمی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کے اپنے وسیع تجربے سے اخذ کرتے ہوئے، انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کا مستقبل اس کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے : ’’ یہ مجھ پر یا کسی اور باہر کے لوگوں پر منحصر نہیں ہے کہ وہ حل نکالیں۔ ‘‘
اپنی تقریر میں بلوچستان فریڈم چارٹر کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا یہ تجویز پہلی بار جنیوا میں بلوچ کارکنان کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ یہ چارٹر تنازعات کو کم کرنے اور بلوچستان کی قومی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔
انھوں نے کہا اگر کوئی قابل اعتماد اور جامع منصوبہ پیش کیا جائے تو عالمی برادری کی طرف سے بلوچ تحریک کی حمایت کا امکان بڑھ جائے گا۔
انھوں نے بلوچستان میں امن اور خود ارادیت کے حصول کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں ، ان میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں فوری جنگ بندی، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور دونوں طرف سے فوجی کارروائیوں کا خاتمہ شامل ہے۔
انھوں نے بلوچستان کو صحافیوں، امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے لیے کھولنے کی اہمیت پر زور دیا، جن پر اس وقت خطے میں داخلے پر پابندی ہے۔
انھوں نے جنگ آزادی کے نتیجے میں بے گھر ہونے وال افراد کی گھر واپسی ، ان کی جائیداد واپس کرنے اور نقصانات کے ازالے کو بھی مطالبات میں شامل رکھنے کی تجویز دی۔
انھوں نے غیر بلوچوں کی آباد کاری کے ذریعے بلوچستان کے ڈیموں گرافی کی تبدیلی کی پاکستانی پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے اسے نو آبادیاتی ہیرا پھیری کی ایک شکل قرار دیا۔
’’امن عمل کا مرکزی مطالبہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم ہے، جس سے بلوچستان کے لوگوں کو آزادی کے امکان سمیت اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا موقع ملے گا۔‘‘ ٹیچل نے اس بات پر زور دیا کہ حق خودارادیت کا یہ حق اقوام متحدہ کے چارٹر میں شامل ہے اور بلوچ قیادت کو اس پر بات کرنی چاہیے۔
اپنے خطاب میں، ٹیچیل نے ایک آزاد اور خودمختار بلوچستان کے لیے اپنا تصور پیش کیا، جس کی جڑیں سماجی انصاف، مساوات اور جمہوریت کے کلیدی اصولوں پر ہوں۔ انھوں نے مستقبل کے بلوچستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آزاد بلوچستان میں تمام شہریوں کے لیے انسانی حقوق یقینی بنائے جائیں، بشمول خواتین کے مساوی حقوق کے — روایتی طور پر پدرانہ اور قبائلی نظام کے زیر تسلط خطے میں خواتین کے ساتھ عدم مساوات ایک اہم مسئلہ ہے۔
انھوں نےحق ملکیت کی اصلاحات کی تجویز دیتے ہوئے کہا تمام بالغ بلوچ شہریوں کی زمین کی ملکیت میں حصہ داری ہونی چاہیے ، اس طرح دولت اور زمین کی تقسیم میں بڑے پیمانے پر فرق کو دور کیا جا سکتا ہے۔
دولت اور طاقت کی دوبارہ منصفانہ تقسیم کی تجویز دیتے ہوئے انھوں نے کہا بلوچستان کے وسائل سے صرف ایک چھوٹی اشرافیہ کو نہیں بلکہ وسیع تر آبادی کو فائدہ پہنچانا چاہیے۔
انھوں نے ایک سیکولر ریاست کے قیام کی پرزور حمایت کی، جہاں قانون کے تحت تمام مذاہب کو برابری کا درجہ دیا جائے اور کسی بھی عقیدے کو دوسرے سے برتری حاصل نہ ہو۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ ایک جمہوری بلوچستان انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق آزادی اظہار، احتجاج اور آزاد صحافت کا احترام کرے۔
آخر میں انھوں نے ماورائے آئین و قانون گرفتاری اور گمشدگیوں کے بارے میں انکوائری کمیشن کا مطالبہ کیا ، ’’ اس طرح کی تحقیقات متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف دلائے گی۔‘‘
انھوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر بلوچ قیادت پر زور دیا کہ وہ اپنا مقدمہ عالمی برادری کے سامنے ایک واضح اور قابل عمل منصوبہ بندی کے ساتھ پیش کریں۔
انھہوں نے بلوچ جدوجہد اور دیگر تاریخی تحریکوں کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا ویتنام کا امریکہ کے قبضے کو چینلج کرکے کامیابی حاصل کرنا اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ ایک چھوٹی، پرعزم آبادی بھی ایک طاقتور مخالف پر فتح حاصل کر سکتی ہے۔ ’’ ڈیوڈ ، گولیتھ کو شکست دے سکتا ہے ‘‘ ۔
انھوں نے کہا کہ تمام لوگوں کی طرح بلوچوں کو بھی حق خود ارادیت حاصل ہے۔
انوں نے پر عزم لہجے کے ساتھ کہا پاکستان بلوچستان کی آزادی میں تاخیر کا عمل جاری رکھ سکتا ہے، لیکن اس کی اسے بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ دنیا دیکھ رہی ہے اور بلوچستان کی آزادی سے مستقل بنیادوں پر انکار نہیں کیا جا سکتا۔