ریاستی دہشت گردی
کتاب ریویو: گنجاتون بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ناؤم چومسکی کی کتاب “ریاستی دہشت گردی” عالمی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں دہشت گردی کے تصور پر ایک تفصیلی اور تنقیدی جائزہ فراہم کرتی ہے۔ چومسکی نے اس کتاب میں ریاستی دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کی موجودہ تعریف عموماً غیر ریاستی گروپوں تک محدود ہوتی ہے، جبکہ ریاستیں خود بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوتی ہیں، مگر ان کی کارروائیوں کو عموماً دہشت گردی کے زمرے میں نہیں ڈالا جاتا۔ چومسکی کا یہ موقف ہے کہ دہشت گردی کی تعریف میں اس تضاد کی وجہ سے عالمی انصاف اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے بڑے چیلنجز پیدا ہوتے ہیں۔
چومسکی نے ریاستی دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہوئے کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق، ریاستیں بین الاقوامی سطح پر ایسی فوجی مداخلتیں کرتی ہیں جن میں عام شہریوں کی ہلاکتیں، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں شامل ہوتی ہیں۔ ان فوجی کارروائیوں کو اکثر دہشت گردی کے زمرے میں نہیں ڈالا جاتا، حالانکہ ان کے مظالم دہشت گردی کی تمام خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں۔ چومسکی نے امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں کی جانے والی فوجی کارروائیوں کی مثال دی ہے، جن میں عام شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن انہیں دہشت گردی کی تعریف سے باہر رکھا جاتا ہے۔
چومسکی کے مطابق، ریاستی دہشت گردی کی تعریف میں محدودیت کی ایک بڑی وجہ میڈیا اور سیاسی بیانات ہیں۔ میڈیا اور سیاسی رہنما ریاستی دہشت گردی کی موجودگی کو کم اہمیت دیتے ہیں اور غیر ریاستی گروپوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ اس طرح کی میڈیا کوریج عالمی رائے عامہ کو مسخ کرتی ہے اور ریاستی دہشت گردی کی حقیقت کو چھپاتی ہے۔ میڈیا کی طرف سے دہشت گردی کی تشہیر عام طور پر ایسے گروپوں پر مرکوز ہوتی ہے جنہیں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے، جبکہ ریاستی دہشت گردی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس سے عالمی سطح پر دہشت گردی کی درست اور جامع سمجھ بوجھ متاثر ہوتی ہے۔
چومسکی نے اقتصادی اور سیاسی دباؤ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ ریاستیں اقتصادی پابندیاں عائد کرتی ہیں اور سیاسی دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ دوسرے ممالک کو اپنے مفادات کے مطابق لایا جا سکے۔ اقتصادی پابندیاں، جیسے کہ تجارتی بندشیں اور مالیاتی دباؤ، اکثر ایسے حالات پیدا کرتی ہیں جن میں بنیادی ضروریات کی کمی ہو جاتی ہے اور انسانی زندگی شدید متاثر ہوتی ہے۔ سیاسی دباؤ بھی اسی طرح کی مشکلات کو بڑھاتا ہے، اور یہ اقدامات دہشت گردی کی تعریف میں آتے ہیں، مگر انہیں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ چومسکی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اقتصادی اور سیاسی دباؤ کے ذریعے دوسرے ممالک کے لوگوں پر جبر کیا جاتا ہے، جو دہشت گردی کی ایک اور شکل ہے۔
چومسکی کے تجزیے میں یہ بھی شامل ہے کہ دہشت گردی کی موجودہ تعریف کو وسیع کرنا ضروری ہے تاکہ ریاستی دہشت گردی کو بھی شامل کیا جا سکے۔ ان کے مطابق، عالمی سطح پر انصاف اور انسانی حقوق کی بہتر حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کی تعریف میں تمام اقسام کی دہشت گردی کو مدنظر رکھا جائے، بشمول ریاستی دہشت گردی۔ چومسکی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو مکمل طور پر سمجھنے اور حل کرنے کے لیے ایک زیادہ جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جو ریاستی دہشت گردی کو بھی مدنظر رکھے۔
چومسکی نے ریاستی دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ریاستیں اکثر دہشت گردی کے ذریعے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ اور دیگر مغربی ریاستیں بین الاقوامی سطح پر اپنی مداخلتوں اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کرتی ہیں، جو کہ دہشت گردی کی تمام خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم، چونکہ یہ کارروائیاں ریاستوں کی جانب سے کی جاتی ہیں، انہیں دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا۔
چومسکی نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ریاستی دہشت گردی کی موجودگی کو نظرانداز کرنا عالمی امن اور انصاف کے قیام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کی جامع تعریف میں ریاستی کارروائیوں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے تاکہ عالمی سطح پر انصاف اور انسانی حقوق کی بہتر حفاظت کی جا سکے۔ چومسکی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے کے لیے ہمیں ایک زیادہ جامع اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جو ریاستی دہشت گردی کو بھی مدنظر رکھے۔
چومسکی کی کتاب “ریاستی دہشت گردی” عالمی سطح پر دہشت گردی کے تصور کو دوبارہ سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ ان کی تحریر میں بیان کردہ نکات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کی موجودہ تعریف کو وسیع کرنا ضروری ہے اور ریاستی دہشت گردی کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ چومسکی کے تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو مکمل طور پر سمجھنے اور حل کرنے کے لیے ایک زیادہ جامع اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ ان کی تنقید اور سفارشات عالمی امن اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اہم ہیں، اور یہ کتاب اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے کے لیے ہمیں ایک نئی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
چومسکی کے تجزیے میں یہ بھی شامل ہے کہ عالمی سیاست میں طاقتور ریاستوں کی جانب سے دہشت گردی کے استعمال کو جائز بنانے کے لیے مختلف نظریات اور بیانیے تیار کیے جاتے ہیں۔ چومسکی نے ان بیانیوں کی جانچ کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ان کا مقصد اکثر اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو تحفظ دینا ہوتا ہے، اور اس کے لیے دہشت گردی کے تصور کو جان بوجھ کر مسخ کیا جاتا ہے۔ چومسکی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دہشت گردی کی جامع تعریف میں ریاستی دہشت گردی کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے مسئلے کی تمام اقسام کو سمجھا جا سکے۔
چومسکی کی کتاب میں ریاستی دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد، ان کی تنقید اور سفارشات عالمی سطح پر دہشت گردی کے مسئلے کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے ایک نئی سمت فراہم کرتی ہیں۔ ان کے تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی تعریف میں ریاستی کارروائیوں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے، تاکہ عالمی سطح پر امن، انصاف، اور انسانی حقوق کی بہتر حفاظت کی جا سکے۔ چومسکی کی تحریر عالمی سیاست میں دہشت گردی کے تصور کی تفہیم کو مزید گہرا اور جامع بناتی ہے اور ایک زیادہ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔