نوآبادی نظام کے اثرات – عبد الرحیم بلوچ

85

نوآبادی نظام کے اثرات

تحریر: عبد الرحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ڈیکالونائزیشن کا عمل کسی ریاست کی تشکیل اور آزادی سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور کٹھن ہے، کیونکہ کسی قابض ریاست کا جسمانی خاتمہ محض مزاحمت اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے ممکن ہو جاتا ہے، جس کی مثالیں ہم نے عالمی سطح پر دیکھی ہیں۔ افریقہ، امریکہ اور ایشیا کی اقوام نے اپنی آزادی روایتی طریقوں سے حاصل کی، جو ہر دور میں وقوع پذیر ہوتا آیا ہے۔ تاہم، آج بھی بہت سی اقوام اپنی سیاسی خودمختاری حاصل کرنے کے باوجود بالواسطہ نوآبادیاتی اثرات اور ذہنی غلامی سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو پائے ہیں۔

لیکن آزادی کے بعد، قابض اقوام اور ریاست کی فراہم کردہ نصاب، نفسیات، ثقافتی دراندازی، تاریخ اور زبان کی آلودگی سے نجات پانا ایک نہایت ہی مشکل چیلنج ہے۔ آج کی علمی دنیا میں پوسٹ کالونیل لٹریچر کی ایک اہم جنگ اسی بنیاد پر لڑی جا رہی ہے کہ کس طرح کالونائز ریاست نے ہمارے مذہب، ثقافت، تاریخ، سیاست، سماجی ڈھانچے، اور معیشت کو متاثر کیا۔ یہ بحث اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ استعمار کے اثرات کی جڑیں کتنی گہری ہیں، اور ان سے نکلنے کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

ان اقوام کے دانشور اور پروفیسرز پوسٹ-کالونیئل لٹریچر اور نظریات کی بنیاد پر قابض قوم کی تاریخ، ثقافت، سماجی نظام، اور معاشی اثرات کو ڈی-کالونائز کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ بھارت میں اس میدان میں کام کرنے والے ممتاز پروفیسرز جیسے گیاتری چکرورتی سپیواک، ہومی کے بھابھا، اور رنجیت گوہا نے تاریخ، ثقافت، زبان، اور طاقت کی پالیسی پر کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔اسی طرح، افریقہ بھی دیگر اقوام کے زیر تسلط رہا ہے، اور افریقی پوسٹ-کالونیئل لٹریچر ہمارے طلباء، لکھاریوں، اور قارئین کے لیے ایک قیمتی منبع ہے۔ تاہم، اس لٹریچر کی علمی اہمیت کو کم ہی لوگ صحیح معنوں میں سمجھ پاتے ہیں۔ افریقی پوسٹ-کالونیئل لکھاریوں میں نادین گورڈائمر، نگوگی، بیسی ہیڈ اور دیگر شامل ہیں، جنہوں نے اب تک شاندار اور معیاری لٹریچر تخلیق کیا ہے جو استعمار کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔

اسی طرح، دیگر اقوام نے بھی ڈی-کالونائزیشن کے عمل کو سمجھنے اور اس کے ثقافتی، تاریخی، سماجی، اور معاشی اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے مؤثر تحریریں پیش کی ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان جیسی ریاست میں بھی حمزہ علی علوی جیسے ممتاز پوسٹ-کالونیئل لکھاری ابھرتے ہیں، جنہوں نے سماجی مسائل کا گہرائی سے تجزیہ کیا اور استعمار کے اثرات کو واضح طور پر بیان کیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف موجودہ مسائل کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ثقافتی شناخت کی بحالی کی بھی ترغیب دیتی ہیں۔

برطانیہ نے بلوچستان پر براہ راست حکمرانی نہیں کی، لیکن انہوں نے نوآبادیاتی طور پر بلوچ سماجی نظام، سیاست، ثقافت، زبان، اور جغرافیہ میں تبدیلیاں کیں۔ ان کی بالواسطہ حکمت عملی کے تحت ہمارے بزرگوں نے خود کو سیاسی، سماجی، اور ثقافتی طور پر شناخت دی، اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ آج، جدیدیت کے نام پر ہم اپنے کلاسک ادب کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے میں ناکام رہے ہیں، حالانکہ اس ادب میں مزاحمت کی روح، قومی رویے، اور طرز عمل کی اہمیت موجود ہے۔ اس عدم توجہی کی وجہ سے ہم اپنی ثقافتی ورثے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، جو کہ ہماری قومی شناخت کا اہم حصہ ہے۔

آج تک ہمارے مؤرخین برطانوی مؤرخین کی تحریروں پر انحصار کرتے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ہماری اپنی ثقافتی اور تاریخی شناخت میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔ برطانوی نوآبادیاتی نظریات کی روشنی میں لکھی گئی تاریخ نے ہمارے اجتماعی تجربات اور حقائق کو بگاڑ کر پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنی حقیقی تاریخ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں، ہمیں نہ صرف اپنی تاریخ کو دوبارہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اپنے ثقافتی ورثے کی از سر نو تشکیل کی جانب بھی توجہ دینی ہوگی۔

خودساختہ اور غیر فطری “براہوی-بلوچ” تضاد برطانیہ سے پہلے موجود نہیں تھا؛ درحقیقت، برطانیہ نے ہی اس کی بنیاد فراہم کی۔ برطانیہ سے قبل مغربی اور مشرقی بلوچستان کا کوئی واضح تصور نہیں تھا، لیکن آج ہم اسی برطانوی سوچ کو اپناتے ہوئے اپنی سرزمین کو تقسیم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ عمل نہ صرف ہمارے تاریخی تسلسل کو متاثر کرتا ہے، بلکہ ہماری قومی شناخت کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔

برطانوی نوآبادی سے پہلے بلوچ معاشرت اور سیاست میں طبقاتی تضاد موجود نہیں تھا، بلکہ یہ تقسیم برطانوی سامراج کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ بیسویں صدی میں کچھ بلوچ دانشوروں اور ابھرتی سیاسی شخصیات کی محنت نے اس تضاد کو مزید بڑھایا، جو آج کی سیاسی صورتحال میں بھی نمایاں ہے۔پھر بی ایس او نے اس تضاد پر اپنی سیاست چمکائی، جس کی وجہ سے ہم آج بھی نہیں نکل پا رہے ہیں۔

کچھ وقت سے میں محسوس کر رہا ہوں کہ پاکستان اکادمک بنیاد پر اپنے “وائیٹ ماسٹر” برطانوی کے کالونیل پالیسیوں کو اپناتے ہوئے انور الحق کاکڑ، سرفراز بگٹی، اور اپنے صحافیوں و دانشوروں کو ٹاسک دے رہا ہے۔وہ “براہوی-بلوچ” جیسے مصنوعی تضاد کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، بلوچ تاریخ کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں، اور بلوچ جغرافیہ کو بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمار مسعود کی کتاب “ہزار خان بجارانی: مزاحمت سے مفاہمت تک” اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کیا ریاست کی اس علمی جارحیت کا مقابلہ سیاست اور مزاحمت سے ہوگا؟ میں سمجھتا ہوں کہ نہیں۔

بلوچوں کو اپنے پوسٹ-کالونیل لٹریچر کو مستحکم اور موثر بنانا چاہیے تاکہ وہ اپنی ثقافت اور تاریخی شناخت کو بحال کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے دانشوروں کو محنت اور تحقیق میں اضافہ کرنا ہوگا، اور بلوچ طلبہ کو کالونیل اور اینٹی کالونیل نظریات کے حوالے سے آگاہ کرنا چاہیے۔ بلوچ طلبہ تنظیموں نے علمی بنیادوں پر اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ریاست بلوچ تحریک کو سخت طاقت سے کچل نہیں سکی؛ اب وہ “نرم طاقت” کے ذریعے کاؤنٹر نیریٹو پالیسی کے تحت تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس لیے، بلوچ دانشوروں کو اس ڈیکولونائزیشن کی جنگ کی قیادت کرنی چاہیے، تاکہ وہ اپنی تاریخ، ثقافت، اور شناخت کی حفاظت کر سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔