بائیں بازو کے رہنما دیسانائیکے سری لنکا کے نئے صدر منتخب

114

سری لنکا کے صدارتی الیکشن میں دوسری بار گنتی کے بعد مارکسسٹ رجحان رکھنے والے امیدوار انورا کمارا دیسانائیکے کامیاب قرار پائے ہیں۔

سری لنکا کی تاریخ میں پہلی بار صدارتی الیکشن کے نتائج کے لیے دوسری بار ووٹوں کی گنتی کی گئی تھی کیوں کہ پہلی بار گنتی میں کوئی بھی امیدوار صدارت کے لیے مطلوب 50 فی صد ووٹ حاصل نہیں کر سکا تھا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پہلے مرحلے میں مارکسسٹ رہنما انورا کمارا دیسانائیکے 43.31 فی صد ووٹ لے کر سب سے آگے رہے جب کہ ان کے مقابلے میں اپوزیشن لیڈر سجیت پریمداسا نے 32.76 فی صد ووٹ لیے ہیں۔

دوبارہ گنتی میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے دوسری ترجیح والے بیلٹ پیپر شمار کیے گئے جس میں دیسانائیکے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

صدر منتخب ہونے والے 55 سالہ دیسانائیکے بائیں بازو کے سیاست دان ہے۔

انہوں نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے دو ارب 90 کروڑ ڈالر کے پیکیج کی شرائط پر از سرِ نو بات چیت کا عندیہ بھی دیا ہے۔

تاہم انہوں نے آئی ایم پروگرام سے متعلق مفاہمانہ لہجہ اختیار کیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ٹیکس کٹوتیوں سمیت دیگر اقدامات آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی کیے جائیں گے۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران دیسا نائیکے نے اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آئے تو اپنی پالیسیوں کے مطابق قانون سازی اور اقدامات کے لیے سری لنکا کی موجودہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے 45 دن کے اندر عام انتخابات منعقد کرائیں گے۔

نومنتخب صدر دیسانائیکے نے صدارتی الیکشن میں موجودہ صدر رانیل وکرما سنگھے اور اپوزیشن رہنما سجیت پریماداسا کو شکست دی ہے۔

سجیت پریماداسا پہلی گنتی میں 32 فی صد سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے جب کہ صدر وکرما سنگھے پہلے ہی مرحلے میں صدارتی دوڑ سے باہر ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ سری لنکا کے صدارتی انتخابات میں مجموعی طور پر 38 امیدوار میدان میں تھے۔

سری لنکا میں 2022 کے معاشی بحران کے باعث اٹھنے والی احتجاجی لہر میں راجہ پاکسے کی حکومت ختم ہونے کے بعد اقتدار سنبھالنے والے رانیل وکرم سنگھے صرف 17 فی صد ووٹ حاصل کر سکے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کا کہنا ہے مبصرین صدارتی الیکشن کے نتائج کو صدر وکرما سنگھے کے اقدامات سے متعلق ریفرینڈم بھی قرار دے رہے ہیں۔

سری لنکا میں دو سال قبل آنے والے دہائیوں کے بدترین معاشی بحران کے بعد ہفتے کو پہلے صدارتی الیکشن کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی۔صدارتی الیکشن کے لیے دو کروڑ 20 لاکھ آبادی میں سے ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد شہری ووٹ دینے کے اہل تھے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹنگ کے لیے 13 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔

سری لنکا میں 1982 میں پہلی بار صدارتی الیکشن ہوئے تھے جس کے بعد سے اب تک ہونے والے انتخابات کے پہلے ہی مرحلے میں امیدوار مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب ہوتے آئے ہیں۔ لیکن اس بار پہلی مرتبہ دوسری گنتی کے بعد کامیاب امیدوار کا فیصلہ ہوا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امیدواروں میں کڑے مقابلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالیہ معاشی بحران نے سری لنکا میں بڑے پیمانے پر معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی تقسیم بھی پیدا کی ہے۔